زمانہ جاہلیت میں لوگوں بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ زمین میں درگور کردیا کرتے تھے وہ اسے اپنے لیے منحوست سمجھا کرتے تھے ، ننھی سی جان پر کیا بیتی ہوگی اسکا رونا ،چیخوں سے واقف ہوگی تو زمین اور وہ مٹی جس میں ننھا جسم دفن دبا ہوتا تھا۔ جب اسلام کی روشنی چارسو پھیلی تو بیٹی کو منحوست نہیں بلکہ رحمت قرار دیا گیا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے۔ عورت کیلئے بہت ہی مبارک ہے کہ اس کی پہلی اولاد لڑکی ہو۔
جس شخص کی بیٹیاں ہو اسے برا نہ سمجھو اس لیے کہ میں بھی بیٹی کا باپ ہوں
جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ اے لڑکی!تو زمین میں اتر میں تیرے باپ کی مدد کروں گا۔
بیٹی تو رحمت کا دروازہ ہوتی ہیں ،بخشیش کا ذریعہ ہوتی ہیں جہنم کی ڈھال ہوتی ہیں۔
آج ہم میں اور زمانے جاہلیت کے لوگوں میں کیا فرق ہے؟ ہم زندہ دفن تو نہیں کرتے مگر اس کے علاوہ کافی اذیتیں دیتے ہیں۔کچھ لوگ آج بھی بیٹی کی پیدائش پر منہ بنا لیتے ہیں ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں جہنیں شروع دن سے ان کی مستقبل کی فکر لگ جاتی ہے حالانکہ وہ رحمت کو خود زحمت بنا رہے ہوتے ہیں اپنے لیے، کیسے؟ ان کو اہمیت نہ دے کر ان کی بہتر تربیت نہ کرکے ان کو اسلام کے اصولوں سے واقف نہ کرکے،دنیاوی تعلیم سب کچھ نہیں اسلامی تعلیم دینا بھی ضروری ہے مدرسے یا ادارے میں بھیجنا ضروری ہے لیکن سب سے پہلے جو ماں باپ تربیت دیا کرتے ہیں وہ زندگی بھر بچے کے ذہن میں ڈائری میں لکھی تحریروں کی طرح محفوظ رہتی ہے۔آج کل ماؤں کو ڈھیر سارے کام ہیں باپ بھی فارغ نہیں، دن میں نہیں ہفتے میں ہی سہی مگر ضروری ہے آج کل کی دنیا اور اس کا ماحول محفوظ نہیں انٹرنیٹ،ٹی وی اور اس پر دکھایا جانے والا مواد بچوں کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے خدارا بچوں کو اس سے رکھیں رکھے آج آپ بیٹی کو بیٹھا کر یہ کیوں نہیں سکھاتے کہ بیٹی تم جب اپنے گھر جاؤں گی تو کیسے اپنے شوہر اور ان کے گھر والوں کے ساتھ رہوگی کیسا برتاؤ کرو گی جس میں عزت سرفہرست ہے جہاں عزت نہیں ہوتی وہاں تعلقات دیمک زدہ لکڑی کی طرح کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں رشتوں کو پَر لگ جاتے ہیں اور وہ کسی بھی وقت کھلی کھڑکی سے اڑ کر نکل جاتے ہیں۔
بیٹے کو بھی اتنی ہی توجہ چاہیے ہوتی ہے۔ تربیت کا پہلا سبق ہے ۔ رشتے بناو ہی نہ اگر عزت نہیں کرنا جانتے۔ کہتے ہیں باپ کا عکس ہی بیٹے میں نظر آتا ہے اور اگر آپ نے تربیت ایسی کی ہو کہ دیکھنے کے بعد لوگ یہ کہیں کہ بھئی ماں باپ نے کیسی شاندار تربیت کی ہے اس بچے کی، نہ کہ ایسی کوئی نازیبا حرکت کرے جس کو سننے کے بعد آپ کو افسوس،ندامت اور شرمندگی محسوس ہو، اچھے برے کوپہچاننے کا فن،لوگوں کی عزت ،آنے والی زندگی میں بننے والی محرم کے حقوق یہ سب کوئی ادارہ یا حکومت نہیں سکھائے گی بلکہ آپ سکھائیں گے جتنےایک باپ کی بچے کو بہترین تربیت کرسکتا ہے ایک ٹیچر کبھی نہیں کرسکتا۔اساتذہ کو اکثر کہتے سنا ہوگا جب بچہ کوئی شرارت کریں کہ یہ سکھایا ہے ماں باپ نے تو ایسے فقروں سے بچیں بچوں کو عزت کرنا سکھائے۔
ایک سچا واقعہ جو آپ کی نظر کرنا چاہوں گا۔
آج چاروں کلاس اٹینڈ کرنے کے بعد کیفٹریا میں بیٹھے تھے۔ آج زباریہ چپ چپ سی بیٹھی تھی ان میں ذہین سمجھی جانے والی دوست ، عدنان اورفرخندہ ہمیشہ کی طرح چھوٹی چھوٹی شرارتوں اور اپنے لطیفوں سے عرفان اور زباریہ کو محظوظ کرتے رہتے تھے لیکن آج زباریہ چپ چاپ بیٹھی تھی۔کچھ دیر بعد عدنان اٹھا اور عرفان کو کہا اچھا میں چلتا ہوں یار میرا کل میچ ہے پریکٹس کرنی ہے
سب کو بائے کہہ کر بیگ اٹھایا اور چلا گیا
کچھ دیر خاموشی ہی رہی کسی نے بات تک نہ کی
فرخندہ اٹھی اور اجازت طلب کرکے کہنی لگی
اچھا گائز میں چلی خالہ کہ ہاں جانا ہے
عرفان نے کہا : ٹیک کیئر اللہ حافظ
زباریہ بھی اٹھنے ہی لگی کہ عرفان نے کہا محترمہ کہاں جارہی ہو ابھی تو ڈھیر ساری باتیں کرنی ہے تم سے بیٹھو
زباریہ کچھ کہے بغیر بیٹھ گئی
اچھا یہ بتاؤ کیا ہوا کیوں چپ چپ ہو؟
عرفان نے زباریہ کی جواب طلبی کی
زباریہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے جسے وہ کافی دیرسے روک کر رکھی ہوئی تھی کہنے لگی عرفان
امی ابو نے انکار کردیا عامر کے امی ابو کو وہ رشتہ لے کر آئے تھے
مگر اب ہم رات گھر سے بھاگ کر شادی کر لیں گے ایسا نہ ہوا تو خودکشی کرلوگی آنسو صاف کرنے کے ساتھ اس نے تلخ لہجے میں کہا
عرفان نے سنا تو اس کا سر ہی گھوم گیا بولا
تم نے کہا تھا نہ کہ عامر کے فادر نے بھی انکار کیا تھا وہ بھی خوش نہیں تھے۔
زباریہ کے لیے یہ سوال خلاف توقع ہی تھا لیکن اسے جواب دینا پڑا بولی ہاں ایسا ہی ہے اب بھی وہ خوش نہیں ہیں۔
عرفان نے کہا:تو پھر ؟
زباریہ نے عرفان کو کہا :تو پھر کیا ؟
عرفان:دیکھو زوبی ایک بات یاد رکھنا میں نے بھاگ کر شادی کرنے والے جوڑوں کو آج تک خوش نہیں دیکھا اور ہاں تم یہ فیصلہ جذبات میں آکر کررہی ہوں تو ایسے گھر نہیں بنا کرتے ایسے رشتے زیادہ نہیں چل سکتے ان کا اختتام بڑا خوفناک ہوا کرتا ہے۔تم آج بھاگ کر شادی کرلو گی تمہیں پتہ ہے اپنی خوشی کیلئے تم کتنے لوگوں کو پریشانی،دکھ درد دو گی تمہاری ماں جو تم پر فخر کرتی ہے وہ مرجائے گی لوگوں کی باتیں سن کر ختم ہوجائے گی اور تمہارے ابو تمہیں یاد ہے تم انہیں اپنا ہیرو کہتی تھی اب کیا ہوا وہ ہیرو کبھی گھر سے باہر نکلنے کے قابل نہیں رہے گا جتنے بھی بڑے دل کا انسان ہو جب اس کی عزت یوں اسے بےعزت کرکے چلی جائے تو وہ زندہ لاش بن جاتا ہے۔تم کتنے دن خوش رہو گی دس دن بیس دن یا چلو سال کرلو بس، ایسے بے برکت رشتے جن میں ماں باپ کی دعائیں نیک تمنائیں نہ ہو وہ کبھی خوشی پر اختتام پذیر نہیں ہوتے محبت کرنا بری بات نہیں لیکن محبت کے نام پر ایسا کرنا یہ درست نہیں تم نے محبت کو اچھا نام دینا چاہا تو کرکے دیکھ لیا پتہ ہے ایسا کیوں ہوا ؟
عرفان نے زباریہ کو دیکھا تو وہ روئے جارہی تھی اس کی آنکھیں سرخ تھیں مگر عرفان نے بات جاری رکھی
کیونکہ اس میں اللہ کی کوئی بہتری ہوگی اس نے تمہارے لیے بہتر سوچا ہوگا لڑکے ایسے الزامات ایسے داغوں سے جلد دھل کر نکل آتے ہیں وہ ایسے الزامات سے جلد بری ہوجاتےہیں لیکن لڑکی ہمیشہ پستی رہتی ہے کسی کو کیا پتہ کل کو وہ تمہارا ہاتھ چھوڑ دے تمہیں بیچ رستے میں چھوڑ کر چلا جائے تم کیا کرو گی واپس آ سکو گی کس منہ سے واپس آؤ گی کیا منہ دیکھاؤ گی یہ وہ سب اثرات ہے جو تمہارے گھر چھوڑنے کے بعد رونما ہونگے خودکشی کرنی ہے تو وہ حرام ہے اور نہ ہی ہر مسئلے کا حل خودکشی ہوتا ہے اب بس ایسا کرنے سے پہلے میری باتوں پر غور کرنا اور ہاں اچھی لڑکیاں یہ سب نہیں کرتی میں وہ دوست نہیں کہ تمہیں برے فیصلوں کے لیے سپورٹ کروں چلو یہ رونا دھونا ختم کرو اور سمائل دو روتے ہوئے بہت بری لگتی ہوں۔زباریہ مسکرائی آنسو صاف کیے اور دونوں نے بیگ اٹھائے اور باہرکی طرف چل دیے۔اگلے روز کلاس میں انٹر ہوئی تو عرفان کو اکیلے بیٹھے دیکھ کر اس کے پاس جاکر بیٹھ گئی اور پہلا لفظ ہی یہ کہا تھنک یو عرفان تم واقعی میرے سب سے اچھے دوست ہو۔تم نے میری زندگی بچا لی۔
کچھ میری بہنیں ایسا قدم بھی اٹھا دیتی ہیں شاید انکی تربیت میں کمی ہوتی ہے۔یہ وہ شیطان کے جال میں پھنس جاتی ہیں ۔
کل میں نے ایک پوسٹ پر کمنٹ پڑھے تو افسوس ہوا اور میں یہ کہنا چاہوں گا پاکستانی عوام جذباتی ہے نہ کبھی غور سے پڑتی ہے اور نہ غور سے ووٹ دیتی ہے لیکن یہاں وہ جملہ فٹ ہوتا ہے جیسی عوام ویسے حکمران بہرحال پوسٹ محبت کے بارے میں تھی، تو جناب حرام محبت اسے کہا گیا ہے جس کی آڑ میں کر گل چھرے اڑاتے ہیں ہاتھوں میں ہاتھ دیے پارکوں میں ہوٹلوں میں نظر آتے ہیں جوڑے نظر آتے ہیں اگر وہ جوڑے ہو تو ایسی محبت کو حرام قرار دیا تھا محبت کرنا ہرگز حرام نہیں مگر یہ کہہ دینا کہ اسلام میں محبت سے منع نہیں کیا تو جناب غور کریں منع کیسے نہیں کیا گیا لڑکی اپنی پسند کا اظہار کرتی ہے جب ا سکو لڑکے والے دیکھنے آتے ہیں اس وقت صرف لڑکے کو دیکھ سکتی اور لڑکی لڑکے کو، اس کے بعد وہ انکار کرے یا اقرار اس کے فیصلے کو مانا جاتا ہے لیکن جو وہ محبت جو اگر آپ کو کسی شخص سے ہے اسے اپنے ماں باپ سے چھپانا اس سے انکی اجازت کے بغیر ملنا یہ حرام ہے ایسی محبت حرام ہے تو غور ،تسلی سے تحریر پڑھا کریں اور فضول اور من گھڑت باتوں سے اجتناب کیا کریں اور اپنی محبت اگر اتنی ہی سچی ہے تو اسے نکاح کے نام میں تبدیل کریں اور والدین سے گزارش ہے کہ وہ بھی اپنے بچوں کی پسند کو مدنظر رکھیں اور ان کے لیے جلد اور موزو فیصلہ کریں تاکہ وہ شرمندگی کا باعث نہ بنے ۔ اس کے باوجود دو محبت کرنے والے ایک نہیں ہو پاتے تو اس میں اللہ کی کوئی بہتری ہوگی رونے دھونے سے اپنا وقت مت ضائع کریں روئے تو صرف اللہ کے سامنے ۔اللہ تمام بیٹیوں کے نصیب اچھے کریں ۔آمین ثم آمین
نوٹ:
ضروری نہیں آپ بلاگر کی رائے سے متفق ہو اختلاف کرنا آپ کا حق ہےلیکن اس حق کو غلط استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔شکریہ
Kamal ������������
جواب دیںحذف کریں