منگل، 28 فروری، 2017

دور حاضر کے بچے


محبت اگراس لفظ پر غورکیا جائے تو یہ ہمیں اپنا مطلب سمجھا دیتا ہے۔جیسا کہ اس کے حروف پر غور کیا جائے 

م،ح ،ب،ت بظاہر یہ حروف تہجی لگتے ہیں لیکن تھوڑا سے غور کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا تو مجھے سمجھ آگئی میں آپ کو بھی بتاتا چلو میری دلچسپ تحقیق تو جناب محبت کا جو ’م‘ اس سے بنتا ہے ’ماں‘

اور ح کو تھوڑی دیر اگنور کریں پہلے ’ب‘ کو دیکھتے ہیں تو ’ب‘ سے بنتا ہے باپ اور ’ت ‘سے جو لفظ بنتا ہے وہ ہے تربیت اور ’ح‘ کو اگنور اس لیے کیا گیا کیونکہ کہ ’ح‘ اس لفظ کی ملکیت ظاہر کرتا ہے تو ’ح‘ سے بنتا ہے حکمران تو اس لفظ محبت کے حکمران ہیں ماں باپ اور پابند ہیں اپنی اولاد کی تربیت کیلئے ۔ آج کا میرا موضوع ہی تربیت ہے۔ 


گزرے دور کی اولاد۔

 جب ماں باپ بیمار ہوتے تھے تو ان کے سرہانے سے نہیں ہٹا کرتیتھی ان کی خدمت میں چوبیس گھنٹے کھڑے رہتے تھے ان کی پہلی آواز پرلبیک کہا کرتے تھے 
           میں اس کے بارے میں زیادہ نہیں کہوں گا کیونکہ گزرا ہوا زمانہ واپس نہیں آتا صرف یادیں رہ جاتی ہیں
اور ہمیں اسی میں سے ہی اپنے لیے سبق ڈھونڈنا چاہیے


دور حاضر کی اولاد۔۔

آج ماں باپ بیمار بھی ہو تو بچوں کے پاس ٹائم ہی نہیں کہ ان کا حال تک پوچھ سکے شاید میں غلط ہو مگر یہ ساری تربیت کی بات ہے کہ ماں باپ نے کیسی تربیت کی ہے بچے کی ۔یہاں وہ مثال فٹ بیٹھتی ہے کہ جو دو گے وہ ہی لوٹ کر آئے گا یعنی جیسی تربیت ہوگی ویسا ہی رزلٹ ملے گا ۔کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود ہی بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔یہاں تو ابھی جیسے بچہ قابل ہوتا ہے تو اسے ہوسٹل بھیج دیا جاتا ہے کہ یہ وہ وہاں اچھی تعلیم حاصل کرے گا رہنا سیکھ لے گا دنیا سے واقف ہوجائے گا بعد میں یہ ہی بچہ اگر کچھ غلط کرتا ہے تو سب سے پہلے بات ہی ماں کی تربیت پر آتی ہے

آج کل کی ماؤں کو بولا جائے تو ان کی سب سے پہلی بات یہ ہوتی ہے کہتی ہیں کہ ٹائم نہیں ملتا گھر کے کاموں سے. سکول،ٹیوشن اور مدرسے جاتے ہیں وہ بھی اچھے والے ان سے میرا ایک سوال ہے کیا وہ ادارے ماں جیسی تربیت کرسکتے ہیں ؟آج کل اگر بچہ الٹا کام کرتا ہے تو بات پہلے یہ ہی کہی جاتی ہے کہ یار اس کے ماں باپ نے کیسے تربیت کی ہے یقیناًیہ جملہ سن کے آپکو دکھ تو ہوتا ہوگا مگر اس وقت پانی سر سے گزر ا ہوا ہوتا ہے۔میرا یہ ماننا ہے کہ جو تربیت ماں بچے کی کرتی ہے شاید دنیا کی کوئی درس گاہ کرتی ہو ۔آج کل کا میڈیا جو صرف نوجوان نسل کو برباد کررہاہے ۔خدانخواستہ بچہ اس کو اپنا لے تو وہ صرف بربادی ہے میڈیا صرف ذہنوں کو خراب کرہا ہے اور سب سے زیادہ منفی اثرات میڈیا کی وجہ سے ذہنوں پر پڑھ رہے ہیں ۔پچھلے دنوں ایک خبر جو گردش کرتی رہی کہ بچے نے اپنی ٹیچر کی محبت میں ناکامی پر اپنے آپ کو گولی مار دی تو
اس میں بات پہلے کیا آئی گی کہ کیسے تربیت کی ہے پھر ادارہ بھی بدنام ہوا میرا موضوع یہ نہیں ہے بات سے بات نکلتی ہے
 اور میں اس استاد کو استاد نہیں سمجھتا کہ جس کی بات میں اثرنہ ہو جو دوسرے کا ذہن نہبدل پائے۔یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عزت کروائی جاتی ہے آج کل کے زمانے میں یہاں ویسے کم ہی لوگ ہیں جو آپکی عزت کریں گے ۔میری تمام والدین سے درخواست ہے کہ وہ اپنے بچوں کو وقت دیں ان کی تربیت اسلام کے اصولوں کے مطابق  کریں تاکہ آپکی اولاد آپ کے کیلئے دنیا میں باعثِ فخر ہو اور آخرت میں ذریعہ نجات ہو کل کو آپ  فخر کریں جب کوئی یہ کہے کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے اور کتناذہین کتنا سلجھا ہوا ہے ۔

ماں باپ کی ذمہ داریو ں میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ بچے کو اچھی تعلیم دلوائے اچھے ادارے میں بھیجے اچھے کپڑے خرید کر دیں اور اولین اس کی تربیت ایسی کریں کہ اسے لوگ اخلاقی طور پر پسند کریں نہ کے اس کی شہرت،دولت سے اسے پہچانے اگر خدانخواستہ آپ اپنی بچے کی تربیت میں فیل ہوگئے تو آپ کو اس کا حساب دینا ہوگا آپ سے سوال کیا جائے گا


دراصل جو ہم پر آج مصیبتیں آرہی ہیں وہ سب اسلام کی تعلیمات سے دوری ہیں۔یہاں پر آپ سے ایک واقعہ شیئر کرتا چلوں۔فرانس کا ایک 
واقعہ ہے جب دو بچے مسجد میں مولانا صاحب کے پاس آئے مولانا صاحب سے کہا کہ ہم یہاں پڑھنا چاہتے ہیں تو مولانا صاحب نے بچوں سے کہا کہ آپ کے ساتھ کوئی بڑا نہیں آیا تو بچے نے کہا کہ میری والدہ وہ باہر دروازے میں کھڑی ہیں تو مولانا صاحب اٹھے اور دروازے کی طرف گئے تو دیکھا کہ ایک خاتون وہاں کھڑی ہے مولانا صاحب کے پوچھنے پر اس نے کہا کہ میں ایک غیر مسلم ہوں تو مولانا صاحب نے کہا تو آپ بچوں کو مسلمانوں کے مدرسے میں تعلیم کیوں دلوانا چاہتی ہیں کیونکہ آپ تو مسلمان نہیں تو خاتون نے کہا کہ میں اپنی ایک مسلم پڑوسی کے بچوں کو دیکھتی ہوں کہ وہ اپنی ماں کی کتنی قدر کرتے ہیں جب وہ چلتی ہے تو وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں اس کا اتنا اداب و احترام کرتے ہیں کہ اس کے سامنے نظریں نہیں اٹھاتے 
تو یہ ہوتی ہیں تربیت جو غیر مسلم کہ دلوں پر بھی اثر کر جاتی ہے تو پھر سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کریں آخر میں دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور ہمیں اپنی والدین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور جن کی اولاد نہیں ہے اللہ انہیں نیک و صالح اولاد عطا فرمائے آمین 
طالب دعا ۔ندیم خان

ایک تبصرہ شائع کریں

favourite category

...
section describtion

Whatsapp Button works on Mobile Device only