جمعرات، 23 مارچ، 2017

شادی وخانہ آبادی







جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔زمین پر کئی لوگ آپس میں مل کر ان جوڑوں کی وجہ سے آپس میں ملتے ہیں اور کہیں نئے خاندان بنتے ہیں۔کچھ لوگوں اپنوں میں ہی رشتہ کروا کر اس رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے ہیں۔
شادی سنت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے۔حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنتوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے انکی زندگی اور انکے احکامات کو اپنانا چاہیے تبھی ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
لیکن آج کل کے دور میں ہم نے شادی جیسی سنت کو اپنایا بھی تو اس میں غیر مسلم کی روایات کو ڈال کر اور وہ سب چیزیں اور وہ سب عمل اپنائے جس کی مونعت ہے۔ہم نے اپنی خوشی کی خاطر دوسرے کی پریشانی اورتکلیف کو اونچے گانوں کے شور میں دبا دیا۔ آج کی شادیاں جو ہفتہ پہلے ہی شروع ہوجاتی ہیں روز رات کو ڈھولکی اور گانا لگا دینا۔کیا آپکو معلوم ہے اس عمل سے آپ کے پڑوس میں کوئی بیمار ہوکسی کو تکلیف ہوتی ہو؟ کیا یہ سب اس کی طبعیت پہ گرا گزرتا ہو؟اگر ان سے یہ سب کہا بھی جائے تو بھونڈا سا جواب داغ دیتے ہیں کہ یار ایک ہی بیٹی / بیٹا ہے کیا اب خوشی بھی نہ منائے ۔ واہ واہ کیا اکلوتی اولاد کی خوشی آپ دوسروں کو پریشان کرنے سے ملے گی؟انہی دنوں راتوں میں آپ اس بچے یا بچی کو بٹھا کر وہ باتیں کیوں نہیں سکھاتے جو اس کے لیے نئی زندگی کیلئے سودمند ثابت ہونگی جو آپ کا تجربہ ہے اسے اپنے بچوں میں منتقل کیوں نہیں کرتے کہ کیسے سسرال والوں کے ساتھ رہنا ہے ان کے ساتھ کیسا برتاؤ رکھنا ہے۔
یہاں ایک بات جو میں آپ سے کرنا چاہتا ہوں کہ شادی کرنے سے پہلے اس کے متعلق جاننا ضروری ہے لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سکھیں۔
مطالعہ کریں کیسے آنے والی زندگی میں ہم نے سسرال شوہر یا بیوی سے برتاؤ کرنا ہے۔اس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کریں۔تب جاکر آپ ایک اچھا گھرانا بنا سکتے ہیں۔اپنے بچوں کی تربیت کرسکتے ہیں۔

موجودہ دور کی شادیوں کی بات کی جائے تو ایک شادی پر اتنا پیسہ خرچ کردیا جاتا ہے کہ اس پیسے سے کئی غریب بیٹیوں کا گھر بسایا جاسکتا ہےصرف لوگوں کو دیکھانے کیلئے اتنا پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔مہندی جیسی رسم پر لاکھوں روپیہ لگایا جاتا ہے جو کہیں سے بھی مسلم معاشرے کی روایات کا حصہ نہیں توپھر کیوں بڑے اہتمام کے ساتھ کی جاتی ہے؟پوری پوری رات طوفانِ بدتمیزی برپا کی ہوتی ہے اونچا میوزک ،فحش حرکات اور پتہ نہیں کیا کیا ہوتا ہے معذرت کے ساتھ آپ شیطان کو خوش کر رہے ہیں یہ سب کرکے بعد میں اس کے اثرات نظر آتے ہیں لیکن اس وقت سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔اور آپ کو یہ بھی پتہ نہیں لگ رہا ہوتا کہ یہ آزمائش ہے یا میرے گناہوں کی سزا ۔شادی کو کیوں اتنا مشکل بنا دیا ہے کہ غریب کی بیٹی بس خواب ہی دیکھ سکتی ہے۔ یہاں ایک سچا واقعہ آپ کی نظر کرتا ہوں

ان دنوں میں لاہور گورنمنٹ کالج میں زیر تعلیم تھا میں ایف اے کررہا تھا۔جس گلی میں ہوسٹل تھا وہاں ایک بڑھی عورت رہتی تھی اور اس کا کچہ سا گھر تھا مشکل سے پانچ مرلے کا ہوگا۔وہ بڑھیا ایک پرائیوٹ سکول میں کینٹین لگایا کرتی تھی اور اس طرح وہ اپنے گھر کو چلا رہی تھی اس کی تین بیٹیاں تھیں اور ایک بیٹا تھا ۔دو بیٹیاں اور بیٹا جو اپنے والد کے ساتھ کسی حادثے میں وفات پاچکے تھے جس کے بعد ساری ذمہ داری اس کے کندھوں پر آگئی تھی بھائیوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا تھا اور شوہر کے بھائیوں نے بھی۔میں اکثر ان کے گھر جاتا تھا ان کے لیے ضرورت کی اشیاء بازار سے لانے میں مدد کردیا کرتا۔وہ مجھے اپنا بیٹا کہا کرتی تھی ۔مختصر یوں کہ ایک دن میں کالج سے واپس اپنے ہوسٹل کی طر ف جارہا تھا کہ گھر کے قریب دو تین گاڑیاں کھڑی دیکھی تو حیرت ہوئی لیکن تھکن کی وجہ سے میں جا نہ سکا اور کمرے میں جا کر بیڈ پراوندھے منہ لیٹ گیا آنکھ کھلی تو عصر کی اذانیں ہورہی تھی میں اٹھا جلدی جلدی فریش ہوا اور نماز پڑھنے کے بعد ماں جی کے ہاں جانے کا ارادہ کیا (میں اس بڑھیا کو ماں جی کہا کرتا تھا) نماز پڑھ کر میں سیدھا ان کے گھر چلا گیا دروازہ ماں جی نے ہی کھولا جن کا خوشی سے چہرہ کھل کھلا رہا تھا
ماں جی:آو آو بیٹا باہر کیوں کھڑے ہو
میں نے مزاحیہ لہجے میں کہا
ماں جی تسی ہٹو گے تے میں آوا گا نہ
ماں جی نے ایک قہقہ لگایا آج وہ کافی خوش تھی میرا تجسس بڑھ گیا میں بیٹھا تو مایہ جو انکی بڑی بیٹی تھی سامنے ہاتھوں میں مٹھائی لے کر کھڑی تھی میں نے برفی اٹھائی اور پوچھا کس خوشی میں کھلا رہی ہو آپی ؟
مایہ: ارے واہ تمہیں پتہ ہی نہیں شادی طہ ہوگی ہے میری میں نے اونچی آواز میں کہا
مبارک ہو بڑی بی اللہ خوش رکھے آپکو
مایہ: آمین اور میں کسی کونے یہ کنویں میں نہیں بیٹھی ہوئی جو اتنی اونچی آواز میں بول رہے ہو
میں ہنس کر کہا جگتیں سیکھ لو کام آئیں گی
اسی دوران ماں جی چائے بنا کے لیں آئیں۔
میں نے چائے پی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور گپ شپ کرنے کے بعد وہاں سے واپس اپنے ہوسٹل کے کمرے میں آگیا اس رات میں سو رہا تھا کہ فون بجا میں نے سکرین پر نظریں دوڑائی تو گھر سے کال تھی میں چونکا اور دھڑلے سے بیڈ پر سیدھا ہوکے بیٹھ گیا کال ریسو کی تو دوسری طرف رونے دھونے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی میں نے کہا خیریت کیا ہوا سب ٹھیک ہے نہ تو بھائی نے بوجھل دل اور دکھ بھری آواز میں کہا چچا کی ڈیتھ ہوگئی تم کوشش کرو جلدی آجاؤ میں نے دوست کو جگایا میں نے ایک درخواست لکھی جو میری کالج سے چھٹیوں کیلئے تھی بس ایک کاغذ تھا جو احتیاطً لکھ دیا گورنمنٹ کالج اپنا ہی کالج ہوتا ہے بہرحال ریلوے سٹیشن پہنچا تو پتہ لگا کہ اگلی گاڑی صبح سات بجے کی ہے بس وہاں سے فوراً بس اڈے پہنچا دیکھ کر ہی دل خراب ہونے لگا کہ بس کبھی نہیں مجھے بس کا سفر زہر لگتا تھا اور اب بھی لیکن مجبوری تھی بس میں بیٹھ گیا کچھ ہی دیر میں گھر روانہ ہوگیا میں ایک ہفتہ گھر ہی رہا نہ دوست فرحان سے بات کی جب میں واپس لاہور آگیا فرحان کالج سے آیا ہوا تھا دعا سلام اور تعزیت کرکے وہ فوراً ماں جی کے حالات بتانے لگاجو اس ہفتے کے رونما ہوئے تھے میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بھاگ کر ماں جی کے گھر پہنچا جب گھر پہنچا تو ماں جی کرسی پر بیٹھی رو رہی تھی میں ان کے پاس جاکر گھٹنوں کے بل بیٹھا انہوں نے دیکھتے ہی مجھے گلے لگا لیا اور کہتی رہی غضب ہوگیا برباد ہوگئے ہم غریب ہیں تو ا س میں ہمارا کیا قصور؟ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا بولوں اور نہ ان سوالوں کے جواب تھے میرے پاس جو وہ کرنا چاہا رہی تھیں انہیں حوصلہ دیا اور اندر کچن میں کھڑی مایہ آپی کے پاس گیا تو کچن کی باہر صحن کی طرف ایک کھڑکی تھی اس کھڑکی سے دیکھ تو مایہ رو رہی ہے ڈوپٹے کے ساتھ ساتھ آنسو صاف کررہی ہے جو چند دن پہلے خوش تھی اس کی خوشی دیدانی تھی میری ہمت نہ ہوئی الٹے قدم واپس پلٹا اور صحن میں پڑی چارپائی پہ بیٹھ گیا جس کے قریب پڑی کرسی میں اب بھی ماں جی بیٹھی رو رہی تھی
میں نے ماں جی سے پوچھا آخر وہ تھے کون ایک دم ایسا کردیا کہ بارات کے اگلے دن ہی آپکی بیٹی کو طلاق دے کر بھیج دیا وہ بھی جہیز کی وجہ سے جو انہوں نے خود کہا تھا کہ ہمیں نہیں چاہئے پھر بھی
ماں جی نے جب یہ کہا
کہ بیٹا وہ کوئی اور نہیں میرا سگا بھائی ہے
یہ سنتے ہی جیسے کسی نے تیر سینے میں اتار دیا ہو میں کچھ نہ بول پایا
میرے پاس چپ رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا اور میں اٹھ کر چلا گیا
بس دل میں یہ ہی سوچ رہ تھا کہ اللہ ایسے اپنے نہ دے کسی کو اور نہ اتنی دولت دے کہ دوسرے کی عزت اور اس کی رحمت جیسی بیٹی کو یوں ٹھکرا دیا جائے صرف جہیز کی وجہ سے ماں جی کا تو انتقال ہوگیا
مایہ آج جہاں بھی ہوگی اللہ خوش رکھے آباد رکھے میں بھی لاہور سے اسلام آباد آگیا پھر دوبارہ اس جگہ نہیں گیا ۔لاہور گیا لیکن وہاں جانے کی ہمت نہ ہوئی۔
کیوں ہم زمانہ جاہلیت کے طور طریقے اپنائے بیٹھے ہیں کیوں آج بھی اپپر کلاس اور مڈل کلاس والی ذہنیت والے لوگ موجود ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے آخری خطبے حجتہ الوداع پر فرمایا :نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ کسی کالے کو گورے پر نہ کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو عربی پر فوقیت حاصل نہیں برتری صرف تقوی کی بنیاد پر
پھر ہم کیوں ذات پات والا مسلہ لے آتے ہیں اللہ ہم سب کو ہدایت دے ہم سب کو توفیق دے کہ ہم سب فضول رسم ورواج سے بچیں۔آمین ثم آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

favourite category

...
section describtion

Whatsapp Button works on Mobile Device only