جمعہ، 2 اکتوبر، 2020

ایک ماں نے اپنی بیٹی کا گھر برباد کیسے کیا | ڈاکٹر عدنان نیازی


چار پانچ سال پہلے کی بات ہے، ایک کولیگ سے ملاقات ہوئی تو کافی پریشان لگا۔ اس وقت پریشانی کی وجہ پوچھی تو بتانے لگا کہ تین سال پہلے شادی ہوئی تھی۔ شادی کے بعد بیوی نے کہا کہ میں نے جاب کرنی ہے۔

دوست نے مزید بتایا کہ   میرےوالد صاحب  فوت ہو چکے۔ بھائی اور بہنوں کی شادیاں وہ چکی ہیں اور وہ اپنے اپنے الگ گھر میں ہیں سب۔ ماں جی ہمارے ساتھ رہتی تھیں۔ میں نے بیوی سے کہا کہ ضرورت تو نہیں ہےجاب کی۔ مگر وہ کہتی کہ گھر میں بور ہو جاتی ہوں تو میں نے اجازت دے دی۔ وہ ایک پرائیویٹ کالج میں پڑھاتی تھی۔ سات ماہ پہلے اللہ نے ہمیں بیٹی کی نعمت  عطا کی۔ اس دوران کچھ عرصہ بیوی نے جاب چھوڑ دی تھی۔ بیٹی دو ماہ کی تھی تو بیگم نے پھر سے جاب کی ضد شروع کر دی۔ میں نے بتایا کہ ابھی بیٹی چھوٹی ہے اور اسے آپ کی ضرورت ہے۔ مگر وہ ضد پر اڑی رہی۔ میری والدہ نے کہا کہ چلیں بیٹی کو میں سنبھال لوں گی اسے شوق پورا کرنے دیں۔  تین مہینے والدہ صاحبہ نے بیٹی کو سنبھالا مگر دو ماہ پہلے والدہ صاحبہ انتہائی مختصر علالت کے بعد اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ اب بیوی سے کہا کہ جاب چھوڑ دیں کیونکہ اب بیٹی کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے۔ مگر اس کی ضد ہے کہ بیٹی کو ڈے کئیر میں چھوڑ کر اس نے جاب کرنی ہے۔ وہ کالج میں پڑھاتی ہے اور معمولی سی تنخواہ ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری تنخواہ لاکھوں میں  ہے۔ اور  ہمارا گزارہ بہت  اچھے سے ہوتا ہے۔ بیگم سے یہ بھی کہا ہے کہ جو تنخواہ وہاں سے ملتی ہے اتنی بلکہ اس بھی زیادہ الگ سے مجھ سے لے لو۔ مگر وہ ضد پر اڑی ہے۔ بیٹی کو ڈے کئیر میں نہیں چھوڑ سکتا ہوں۔ اب ایک مہینے سے اختلاف اتنے بڑھ چکے ہیں کہ وہ لڑ کر اپنے میکے چلی گئی ہے اور خلع کے لیے عدالت میں درخواست دے رکھی ہے۔ بیگم کی والدہ یعنی میری ساس مجھے اپنی بیوی سے الگ سے بات بھی نہیں کرنے دے رہی کہ کوئی حل نکالا جا سکے۔ وہ کہتے اب جو بھی بات ہو گی عدالت میں ہو گی۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کروں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ایک دوسرے بزرگ کولیگ ہیں جو اس کی بیوی کے دور کے رشتہ دار ہیں۔میں نے  ان کو ساتھ لیا اور لڑکی کے گھر چلے گئے۔ ملاقات میں اسکی بیوی، ساس اور سسر شامل تھے۔ ہم نے سمجھانے کی کوشش کی کہ انکی بیٹی ابھی ایک سال کی ہونے والی ہے۔ تھوڑی بڑی ہوجائے تو پھر جاب کر لینا۔ اس پر وہ نہیں مانے۔ دوسری صورت یہ کہی کہ پھر جاب پر جاتے ہوئے بیٹی کو ادھر اپنی نانی کے پاس چھوڑ جایا کرے لیکن لڑکی کی امی سوشل قسم کی خاتون تھیں وہ کہتیں میری اپنی مصروفیات ہوتی ہیں میں اسکی بیٹی کو نہیں سنبھال سکتی۔ ہم نے کوشش کی کہ کسی طرح لڑکی کی امی کے بغیر اس سے بات چیت ہو سکے کیونکہ وہ کسی بھی طرح سے اس مسئلے کو حل نہیں ہونے دے رہی تھیں بلکہ ایک ہی فقرہ تھا کہ اب جو بھی بات ہو گی عدالت میں ہو گی۔ ہم نے لڑکی سے کہا کہ ایسے گھر خراب نہ کرو، نقصان سب سے زیادہ آپ کو اور اپنی چھوٹی بیٹی کو ہوگا مگر وہ اپنی امی کی باتوں میں آئی ہوئی تھی۔ اور دوستوں رشتہ داروں کی مدد سے بھی کوشش کی مگر اس لڑکی نے عدالت کے ذریعے خلع لے لی۔ ہمارے دوست نے کچھ عرصے بعد دوسری شادی کر لی، اب اس کے تین بچے ہیں ۔ پہلی بچی کا اپنے پاس رکھنے کی کوشش کی مگر عدالت نے والدہ کے سپرد کر دی تھی اور بچی کا نان نفقہ والد کے ذمہ لگایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے دنوں ایک دوست کے پاس بیٹھا تو جو ایک پرائیویٹ سکول میں پرنسپل ہیں۔ ان کے چوکیدار نے آ کر بتایا کہ کوئی خاتون آئی ہیں جو انھیں ملنا چاہتی ہیں اور پہلے بھی کئی چکر لگا چکی ہیں۔ اس نے اسے بلا لیا۔ میں نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا مگر خاموش رہا۔ اسے جاب چاہیے تھی اور پرنسپل صاحب کی تقریباً منتیں کر رہی تھی کہ اسے ٹیچر رکھ لیں وہ بہت مجبور ہے۔ پرنسپل صاحب کا یہی کہنا تھا کہ ہمارے پاس سٹاف پورا ہے۔ آپ سی وی دے جائیں، جب بھی ضرورت ہوئی آپ کو بلا لیں گے۔ جانے سے پہلے مجھے مخاطب کر کے کہنے لگی کہ آپ مجھے جانتے ہیں، آپ ہی سفارش کر دیں۔ تو میں نے کہا کہ آپ ماشاءاللہ اچھے گھرانے سے ہیں، یہ پرائیویٹ سکول والے آپ کو بہت تھوڑی تنخواہ دے پائیں گے، بہتر ہے آپ کسی کالج میں کوشش کر لیں۔ کہنے لگی سر میرے حالات بہت برے ہیں۔ خلع کے کچھ عرصے بعد ہی بھائی بھابی کے جھگڑوں سے تنگ آ کر میں الگ کرائے کے مکان میں رہنے لگ گئی تھی۔ بیٹی کا خرچ تو اس کا والد دے دیتا ہے مگر مکان کا کرایہ اور اپنے اخراجات کے لیے مجھے جاب کرنی پڑتی ہے۔ کافی عرصے سے کہیں بھی کسی بھی قسم کی جاب نہیں مل رہی۔ مجھے اچھے سے پتہ چل گیا ہے کہ شوقیہ جاب کرنے اور مجبوری کے تحت جاب کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ میں نے جاب کی خاطر اتنی بڑی غلطی کی تھی اب حقیقت میں میں کوئی جاب نہیں کرنا چاہتی مگر اب جاب کے بغیر میرا گزارا نہیں ہے۔ شاید میری غلطی کی سزا مجھے مل رہی۔ اور جس والدہ کی باتوں میں آ کر میں نے یہ قدم اٹھایا،  انھوں نے شروع میں میرا ساتھ دیا مگر اب وہ میری کوئی مدد نہیں کرتی ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹرعدنان نیازی

favourite category

...
section describtion

Whatsapp Button works on Mobile Device only