اتوار، 19 مارچ، 2017

تہوار


عید الفطر اور عید الضحی دو تہوار جو سال میں ایک دفعہ آتے ہیں۔عیدالفطر رمضان کے مقدس مہینے کے بعد آتی ہے جو مسلمانوں کے لیے اللہ کی طرف سے ایک تحفہ ہے خوشیوں کا۔عیدالضحی جو کے دو مہینے بعد ذالحجہ کے دسویں روز منائی جاتی ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے قربانی دیتے ہیں۔یہاں ایک سوال ہے؟کیا ہندو ہمارے ساتھ بڑی عید مناتے ہیں گائے قربان کرتے ہیں؟وہ تو گائے کو ماں کہتے ہیں تو پھر ہم ان کے تہوار رسم ورواج کیوں مناتے ہیں؟مبارک باد دینا ایک الگ بات ہم شریک بھی ہوجاتے ہیں ان میں بلکہ وہ بیہودہ الفاظ اور حرکات بھی ساتھ ساتھ کرتے ہیں جو وہ کر رہے ہوتے ہیں جن کی اسلام میں ممانعت ہے پھر اگر انہیں کوئی منع کرے تو وہ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو انسانیت کی خاطر کرتے ہیں۔عقل کے اندھوں انسانیت میں اتنا آگے بھی نہیں جانا چاہیے کہ جائز اور ناجائز کا کو بھی بھول جائے۔پچھلے دنوں ہندوں کا ایک تہوار گزرا ہولی ۔ میڈیا پر یہ بات سن کر بہت دکھ ہوا وہ اینکر بڑے فخر سے کہہ رہی تھی کہ جی سب سے پہلے ہولی ملتان میں شروع ہوئی افسوس۔ہمارے ادکاروں نے ا س میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔مجھے بس تکلیف اتنی ہے کہ ان کے اداکار صرف مبارک باد دیتے ہیں کبھی شرکت نہیں کی۔میں نے آج تک نہیں سناکہ فلاں نے شرکت کی یا گائے قربان کی۔ کچھ دنوں بعد اپریل شروع ہونے والا ہے تو اپریل فول بھی جوش وخروش سے منایا جائے گا ۔جس میں جھوٹ بول کر لوگوں کو پریشان کیا جائے گا کہیں تو اس کا شکار ہوکے موت کی وادی میں ابدی نیند سو جاتے ہیں۔یہ ہم ہی کرتے ہیں ہمارے ہاتھوں سے ہی اچھے خاصے خاندان ٹوٹ جاتے ہیں۔

انسائیکلوپیڈیا انٹرنیشنل کے مطابق مغربی ممالک میں یکم اپریل کو عملی مذاق کا دن قرار دیا جاتا ہے۔اس دن ہر طرح کی نازیبا حرکات کی چھوٹ ہوتی ہے اور جھوٹے مذاق کا سہارا لے کر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے

افسوس صد افسوس یہ فضول فول رسم بھی مسلم معاشرے کا حصہ بن چکی ہے جیسے باقی رسموں کو ہم نے اپنا رکھا ہے۔

اپریل فول کی در ناک حقیقت۔
جب عیسائی افواج نے اسپین کو فتح کیا تو اس وقت سپین کی سرزمین پر مسلمانوں کا اتنا خون بہایا گیا کہ جب فاتح فوج کے گھوڑے گلیوں میں سے گزرتے تھے تو ان کی ٹانگیں گھٹنوں تک مسلمانوں کے خون میں ڈوبی ہوتی تھیں۔جب قابض فوج کو یقین ہوگیا کہ اب کوئی مسلمان زندہ نہیں بچا تو انہوں نے گرفتار مسلمان فرما روا کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ واپس مراکش چلا جائے جہاں سے اس کے آباؤ اجداد آئے تھے قابض فوج غرناطہ سے کوئی بیس کلو میٹر دور اسے پہاڑی پر چھوڑ پر واپس چلی گئی۔ ۔
جب عیسائی فوج اپنے ملک سے مسلم حکمرانوں کو نکال چکی تو حکومتی جاسوس گلی گلی پھرتے تھے کہ جہاں کہیں مسلمان نظر آئے اسے شہید کردیا جائے جو مسلمان بچ گئے وہ اپنے علاقے چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں چھپ کر رہنے لگے۔جہاں جا کر انہوں نے گلوں میں صلیبیں ڈال لیں اور عیسائی نام رکھ لیے۔اب بظاہر اسپین میں کوئی مسلمان نظر نہیں آرہا تھا۔مگر اب بھی عیسائیوں کو یقین تھا کہ سارے مسلمان قتل نہیں ہوئے کچھ زندہ اور چھپ ک رہ رہے ہیں۔اب مسلمانوں کو باہر نکالنے کے لیے ایک ترکیبیں سوجی جانے لگی آخر کار ایک منصوبہ بنایا گیا۔پورے ملک میں اعلان ہوا کہ سارے مسلمان یکم اپریل کو غرناطہ میں اکھٹے ہوجائیں تاکہ انہیں ان ممالک بھیجا جائے جہاں وہ جانا چاہتے ہیں۔چونکہ ملک میں امن قائم ہوچکا تھا مسلمانوں کو خود کو ظاہر کرنے میں کوئی خوف نہ محسوس ہوا۔پورا مارچ اعلانات ہوتے رہے الحمر کے نزدیک بڑے بڑے خیمے نصب کردئیے گئے جہاز آکر بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے رہے مسلمانوں کو ہر طرح سے یقین دلایا گیا کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا جب مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ ان کے ساتھ کچھ نہیں ہوگا تو وہ اکھٹے ہونا شروع ہوگئے اس طرح حکومت نے تمام مسلمانوں کو اکھٹا کردیا اور ان کی کافی خاطر مدارت کی گئی۔
یہ کوئی پانچ سو برس پہلے یکم اپریل کا دن تھا جب سب مسلمان اکھٹے ہوئے اور ان کو بحری جہاز میں بٹھایا گیا مسلمانوں کو اپنا ملک چھوڑتے ہوئے بڑی تکلیف ہورہی تھی مگر اطمینان تھا کہ چلو جان بچ گئی دوسری طرف عیسائی حکمران اپنے محلوں میں جشن منانے لگے جرنیلوں نے مسلمانوں کو الوداع کیا اور جہاز وہاں سے چل دیئے ان میں مسلمان بوڑھے ،بچے، خواتین اور کئی مریض بھی تھے جب جہاز سمندر کہ عین وسط میں پہنچے تو منصوبہ بندی کے تحت جہاز میں بارود کے ذریعے سوراخ کردیا گیا اور خود دوسری کشتیوں کی مدد سے بچ نکلے اور جہاز ڈوبتا چلا گیا ۔اس طرح تمام مسلمان ابدی نیند سو گئے
اس کے بعد سپن میں چشن منایا گیا کہ ہم نے کس طرح مسلمانوں کو بیوقوف بنایا پھر یہ دن اسپین کی سرحدوں سے نکل کر پورے یورپ کے فتح کا عظیم دن بن گیا اور اسے انگریزی میں First April Fool یعنی یکم اپریل کے بےوقوف کا نام دیا گیا آج بھی عیسائی اس دن کو بڑے اہتمام سے مناتے ہیں اور ایک دوسرے کو بےوقوف بناتے ہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے۔۔
جھوٹ بولنے والے پر اللہ کی لعنت
حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے وہ شخص مسلمان نہیں ہوسکتا جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ نہ ہو
قرآنی آیات اور اسلامی احکامات کو پس پشت نہ ڈالیں۔ بعد میں پچھتاوئے کا کوئی فائدہ نہیں۔آپ کا مذاق کسی کا شدید نقصان بھی کرسکتا ہے۔
ایک واقعہ جو میں آپ لوگوں کی بصارت کرنا چاہتا ہوں۔
میں ان دنوں ایف اے کے پیپر دے کر فارغ تھا اس لیے میں نے کچھ عرصہ اولڈ ہوم میں ایک رضاکار کے طور پر کام کیا وہاں ہی تربیت حاصل کی وہاں ہی کام بھی کرتا رہا۔آج بھی جب اپریل کا مہینہ آتا ہے تو مجھے بہت سارے لمحات یاد آتے کچھ لوگ یاد آتے ہیں۔ اکثر وہ بزرگ یاد آجاتے تھے جن کو میں نے جب اولڈ ہوم میں دیکھا تھا ان کا نام غلام رسول تھا انہیں جب بھی دیکھا روتے،اداس اور خاموش بیٹھے دیکھا ایک دن میں ہمت کرکے ان کے پاس جاکر بیٹھا تو وہ اس قدر خیالی دنیا میں گم تھے کہ انہوں نے مجھے دیکھا تک نہیں میں نے ہمت کرکے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا باباجی
تو وہ چونک گئے میں نے کہا باباجی کیسے ہیں آپ؟
باباجی دھمیے سے مسکرا کر کہا ٹھیک ہو بیٹا 
میں:بابا جی ایک سوال کرو آپ سے ؟
باباجی:ایک نہیں سو پوچھو 
وہ ہی اداسی بھری مسکراہٹ 
میں:باباجی مجھے یہا ں کام کرتے دو مہینے ہوچکے ہیں آپ کو میں نے جب بھی دیکھا روتے دیکھا خاموش ایک سائیڈ پر بیٹھے دیکھا آپ کو کبھی کسی کے ساتھ گپ شپ کرتے نہیں دیکھا آپ کو اکیلے رہنا پسند ہیں یہ بچے یاد آتے ہیں؟
باباجی سامنے پودوں پر نظریں جمائے میری بات سنتے رہے جب بات مکمل کرکے میں نے ان کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے انہوں نے روتے ہوئے کہا بیٹا مجھ سے قتل ہوا ہے 
یہ سنتے ہی میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی 
اور باباجی بچوں کی طرح دھاڑے مار کر روئے جا رہے تھے
میں حیران و پریشان تھا کیا یہ سچ بول رہے ہیں 
میں نے باباجی کے کندھے پر ہاتھ رکھا میرے پاس الفاظ نہیں تھے ۔کچھ دیر بیٹھنے کے میں اٹھ کر چلا گیا گھر آیا ساری رات میں سوچتا رہا آخر ماجرا کیا ہے اسی کشمکش میں نیند کب آئی کچھ پتہ نہیں چلا اگلے دن پھر میں نے کوشش کی اور بالآخر وہ راز میں جان گیا 
بابا جی نے کہا بیٹا میرا بہت پیارا دوست ہوا کرتا تھا وہ میرا بہترین دوست تھا وہ ریلوے میں کام کرتا تھا اور میں بھی اسی کے ساتھ اس کے ڈیپارنمنٹ میں ہوتا تھا مختصر یہ یکم اپریل کا دن تھا اس دن میں نے کام سے چھٹی کر رکھی تھی میں نے شرارتاً اپنے دوست کو اپنے ایک نئے نمبر سے فون ملایا اس کے کال رسیو کرنے پر میں نے اسے کہا ایمرجنسی ہو گئی ہے تمہاری چھوٹی بیٹی حفصہ کار کی ٹکر سے زخمی ہوگئی ہے اور ہسپتا ل میں ہے اس کی حالت خراب ہے فلاں ہسپتال پہنچو ۔وہ بیچارہ اس کی اکلوتی اولاد تھی اسی فکر میں وہ دفتر سے نکلا اسے کچھ پتہ نہیں وہ کیا کر رہا ہے اور اس اثناء میں اس نے پارکنگ سے گاڑی نکالی اور اس قدر تیزی سے نکلا کہ ٹرک کے ساتھ اس کا بھی اکسیڈنٹ ہوگیا اور وہ موقعے پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔میں فون بند کرکے شیطان کو خوش کرکے لمبی تان کے سو گیا اور بعد میں جب جاگا تو یہ سب دیکھ کر میرے طوطے اڑ گئے کہ میرے دوست کے گھر صف ماتم بچھی ہوئی تھی اس کی ایک سالہ بیٹی جو اپنےچاچو کے گلے لگ کے رو رہی تھی یہ کہنا تھا بس باباجی میرے گلے رکھ کر روئے جیسے ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہو رہا تھا۔پھر کچھ دیر کے بعد انہوں نے کہا بیٹا ندیم کسی کو دھوکہ مت دینا جھوٹ نہیں بولنا کبھی خوش رہ نہیں پاؤ گے اس کے ایک سال بعد میری دو بیٹیاں اور ان کی ماں اپنی بہن کی بیٹی کی شادی کیلئے ملتان جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوگئے اور جگہ پر ہی جاں بحق ہوگئے یہ وہ ہی جھوٹ تھا جس کا انجام میں نے دیکھا اسے نے کیسے شکار کیا میرا اس کے بعد باباجی خاموش ہوگئے 
میں باباجی کے خاموش ہونے پر کہا
باباجی آپ ادھر کیسے آئے؟
باباجی نے کہا 
بیٹا پھر اس کے بعد مجھے نوکری سے بھی نامعلوم وجوہات پر نکال دیا گیا اور بس مالک مکان کا کرایہ نہ دینے پر مجھے بے گھر کر دیا گیا تین مہینے دربدر پھرنے کے بعد میں ادھر آگیا بس اب یہاں ہو ایک سال سے۔اس کے بعد میں آپ سے کچھ بھی نہیں کہنا چاہتا آپ سب ہوشیار ہیں۔اللہ ہم سب کو جھوٹ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

Watch This video

ایک تبصرہ شائع کریں

favourite category

...
section describtion

Whatsapp Button works on Mobile Device only