آج کل اکثر و بیشتر لوگوں کو کہتے سنا ہوگا کہ ہمیں عشق ہو گیا ہے یا فلاں کو عشق ہوگیا ہے حالانکہ عشق کیا ہے؟ اس کامطلب کیا ہے یہ اگر
پوچھا جائے اس عاشق سے تو اس کو ہرگز معلوم نہیں ہوگا۔اس سوال پر ماں کے لاڈلہ غصے سے لال پیلا بھی ہوجائے گا ۔مگر کوئی نہیں آج کل کی محبتوں میں سچائی دور دور تک نظر نہیں آتی۔اگر دوطرفہ بھی ہو تو ان میں سے ایک فریق کو درج ذیل مجبوریوں کا سامنا ہوتا ہے۔
۱۔گھر والے نہیں مانے گے۔
۲۔سٹیٹس کا فرق۔
۳۔ہم خاندان سے باہر رشتہ کرتے ہی نہیں۔
۴۔ذات پات کا فرق ۔
اور بھی بہت سے ایسے مسئلے مسائل ہیں جو ان بیچاروں اور بیچاریوں کی محبت میں حائل ہوتے ہیں۔اور ان کے پاس رونے دھونے کے علاوہ کچھ نہیں بچتا ۔اگرآج کے عاشق سے پوچھا جائے کہ پیار محبت و عشق میں فرق کیا ہے؟ تو اس دل والے کو معلوم ہی نہیں ہوتا تو پھر وہ کیسے کہہ سکتا ہے مجھے محبت ہے یا عشق
یہ تو ایسا ہی ہے اگر کسی محدودحس مزاح رکھنے والے کو لطیفہ سنایا جائے اور اختتام پر وہ یہ کہہ دے 148اچھا آگے کیا ہوا؟147 تو کیا دو تھپڑ لگانے کا دل نہیں کرتا آپ بس یہ حال ہے ایسے تھرڈ کلاس عاشقوں کا۔۔
بات کی جائے عشق،محبت اور پیار کی لیکن ترتیب ان کی کچھ یوں کی جاتی ہے پیار،محبت اور عشق ان میں سے پیار پہلی سیڑھی ہے محبت دوسری سیڑھی اورعشق وہ سیڑھی ہے جو آپکو بلندی پر پہنچا دیتا ہے۔ اگر پیار کو ڈیفائن کیا جائے تو وہ چیزوں سے انسانوں سے اور جانوروں سے بھی ہوسکتا ہے جو آپ کی آنکھوں کو اچھی لگے اور جسے آپ کی موجودگی سے بھی راحت و خوشی ملےلوگوں نے گھروں میں جانور پالے ہوتے ہیں۔جیسے کے بلی،کتا یا پھر گاؤں میں بکریاں اور بھینسیں۔اکثر کچھ جانوروں کو دیکھا ہوگا کہ وہ کس قدر اپنے مالک سے پیار کرتے ہیں تو یہ صرف جانوروں کا پیار نہیں ہوتا مالک نے بھی ایک عرصہ صرف کیاہوتا ہے اس کی خدمت اس کا لاڈ پیار اٹھایا ہوتا ہے اس کا نخرہ برداشت کیا ہوتا ہے کسی نے اسے اولاد سے بڑھ کر پیار کیا ہوتا ہے تو یہ بھی اپنے مالک کا پیار لوٹا رہا ہوتا ہے۔چیزوں سے بھی ہوسکتا ہے کسی کو کتابوں سے پیار ہوتا ہے لوگ اسے مشغلے کا نام بھی دے دیتے ہیں حالانکہ وہ انکا پیار ہوتا ہے۔انسانوں سے بھی ہوسکتا ہے لیکن ایک سرکل میں رہتے ہوئےنہ کہ اس دائرے سے باہر نکلا جائے دائرے میں رہ کر حلال رشتہ بنا کر۔
جب پہلی سیڑھی سے اوپر والی یعنی کہ دوسری سیڑھی پر قدم رکھا جاتا ہے تو آتی ہے محبت۔محبت کا پیار سے نہ عشق سے گہرا تعلق نہیں یہ اپنا مقام رکھتی ہے یہ بالکل اپنا الگ مطلب رکھتی ہےمیں نے ایک محترمہ سے پوچھا محبت کیا ہے ؟تو وہ بولی کسی مخالف جنس کا دل کو بھا جانا اچھا لگ جانا محبت ہے حالانکہ یہ پیار ہے محبت تو یہ ہے اگر کسی سے کسی کو ہوجائے تو اس کا بھی خیال رہے اور اپنا بھی خیال باقی رہے اور جب یہ کسی انسان سے ہوجائے اور اس کا نشہ سر چڑ کر بولے تو آوارگی ہے پاگل پن نہ کہ عشق۔ہم اسے بہت آسانی سے عشق کا نام دے دیتے ہیں حالانکہ یہ فاسد محبت ہے یہ محبت جب کسی کے دل میں گھر کرتی ہے تو اس دل سے خدا کی محبت نکل جاتی ہے اوراس شخص کے دل میں خدا کی جگہ محبوب آکر بیٹھ جاتا ہے پھر شیطان بھی کامیاب ہوجاتا ہے اسے اپنے چنگل میں پھنسا لیتا ہے غیر مرد یا عورت میں محبت میں پھنسا کر۔ جب وہ اسے نہیں ملتا یا ملتی تو وہ خودکشی کر لیتا ہے یا پاگل پاگل پھرتا ہے اور ہم کہتے اسے عشق ہوگیا اسے عشق نہیں فاسد محبت کہتے ہیں۔آج کل بڑے معتبر اور تعلیم یافتہ بھی محبت کا شکار ہوتے ہیں اور جب ان سے پوچھا جائے تو بلاجھجک فلمی انداز میں کہتے ہیں محبت کی نہیں ہوجاتی ہے افففف اس جملے کو سن کر غصہ آتا ہے یار یہ افسانوی، ڈرامائی اور فلمی ڈائلاگ ہے اس کا رئیلٹی سے کوئی تعلق نہیں آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ محبت ہوگئی ارے بھائی جب آپ کے دل میں محبت ہوگی اللہ کی رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تو مجال ہے کہ کوئی حرام محبت دل میں آئےبلکہ سب محبتیں اس کے گرد گھومے گی اور آپ کبھی یہ نہیں کہے گے یہ نہ ملا یا ملی تو مر جاؤ گا جان دے دو گا یہ ساری عمر اداس اور روتا رہوں گا اور کسی اور کو نہیں زندگی میں جگہ دو گا تو کوشش کریں محبت کو خالص کریں اسے اپنانے کیلئے جائز طریقے اپنائے کہ پارک ہوٹلوں میں گھمائیں۔اسے اپنی عزت بنائے۔محبت کریں تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے اپنے ماں باپ سے بہن سے بھائی سے اپنے اساتذہ سے یہ سکون دینے والی محبتیں ہیں
اب آتا ہے عشق یعنی کہ وہ سیڑھی جو بلندی پر پہنچادیتی ہے جیسے کا ایک نام اتنہا ہے ۔محبت وہ تھی جو کسی سے کسی کو ہوتی ہے تو اس کا خیال بھی رہتا ہے اور اپنا خیال بھی رہتا ہے مگر عشق وہ ہے اگر کسی کو ہوجاتا ہے تو اس کا خیال رہتا ہے اپنا خیال نہیں رہتا۔عشق خدا کی ذات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کیا جائے تو کیا ہی لطف آئے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ مجھے سے اپنے ماں باپ ،اولاد اورتمام لوگوں سے بڑھ کر محبت نہ کرے (صحیح بخاری)
ایسی محبت ہو تو انسان کا بیٹرا ہی پار کردے عشق وہ کروا دیتا ہے جو عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا عشق انسان کو ولی بھی بنا دیتا ہے ۔بہت سی مثالیں موجود ہے جنہیں تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔جیسا کہ غازی علم دین شہیدؒ جنہوں نے گستاخ رسول کو قتل کردیا۔وہ بھی اس کی دوکان پر جاکر اسے چھریوں کہ وار سے جہنم واصل کردیا تھا تو یہ ہے عشق بلا خوف اپنا کام کرجانا دنیا آج بھی ان کا نام عزت وتکریم کے ساتھ یاد کرتی ہےاور انکو سلام پیش کرتی ہے بعداز انگریز غلام حکومت نے ان کو پھانسی دے دی یہ ہر کسی کی نصیب میں نہیں ہوتا رب کسی کسی کو منتخب کرتا ہے لیکن قسمت بنائی جاتی اللہ بھی دلوں کو جانتا ہے مگر افسوس اب جنون اور پاگل پن کو عشق کا نام دیا جاتا ہے اور عشق کی قسمیں بھی بنا دی جاتی ہے تو یہ غلط ہے عشق اکیلا ہے اور اس کے ساتھ جنون پاگل پن یہ لفظ جوڑنا احمقانہ حرکت ہے۔موجودہ دور کی مثال لی جائے تو نام آتا ہے غازی ممتاز حسین قادریؒ کا جہنوں نے ا اپنی اولاد اپنے ماں باپ سب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ناموس پر قربان کردیا کون کون سی مثالیں دوں یہ ہے عشق اور ایسے ہوتے ہیں عاشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم عشق یہ بھی ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے احکامات پر عمل پیرا ہواور سنتوں کو عام کریں پہلے خود عمل کریں پھر دوسروں کو اس کی تلقین کرے۔دعا ہے اللہ ہم سب کو معاف فرمائے اور ہمارے دلوں میں رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت ڈال دے آمین۔
ایک تبصرہ شائع کریں