زین بارہ سال کا خوبصورت لڑکا تھا...... یہی اس کی سب سے بڑی خامی بھی تھی سکول میں شرارتی لڑکے زبردستی پشت سے اس کو چھیڑ کرکے نکل جاتے..... کلاس فیلو اسے بڑی کلاس کے ایک شریر نوجوان کے نام سے چھیڑنے لگے تھے وہ کبھی کبھی اپنے استادوں کو شکایت کرتا تو الٹا ساتھ دینے کے اسکا تمسخر اڑایا جاتا تھا.....
سکول کے گیٹ سے لے کر گھر کے دروازے تک وقار نامی لڑکا اسے تنگ کرتا زین بھاگ کر ان جنگلی جانوروں سے جان چھڑاتا وقار اور اس کے ساتھی اس کو دبوچ لیتے کوئی اس کے گالوں ہونٹوں پر ہاتھ لگاتا اس کی پینٹ اتار کر اسے روتا چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے. زین ماں باپ کا دوسرا بیٹا تھا باپ کی سخت طبعیت ہونے کی وجہ سے وہ کچھ کہہ نہیں پاتا تھا ماں سے کہتا تو ماں ان سنی کردیتی..... اور بھائی بیگانے دیس میں بیٹھا گھر کو سنبھالے ہوا تھا..... سکول کی اذیت سے چھٹکارا پاکر اکیڈمی کے سر کی ہوس بھری نگاہوں کو بھی سہتا تھا کبھی کبھی وہ سوچتا خوبصورت ہونا جرم ہے سر یاسر اس کی چھٹی بندکرکے شام دیر تک بیٹھائے رکھتے اسے میرا کیک کہہ کر مزید ذہنی طور پر ختم کررہے تھے جب آپ پر جنس کا شدید دباؤ ہو تو عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے پھر آپ کو اپنے عہدے کے مان کا خیال بھی نہیں رہتا آپ کے اندر کا کمینہ پن آپکو احساس دلاتا ہے کچھ بھی نہیں ہوتا پھر انسان سب کرگزرتا ہے..
ایک روز زین کا ضبط ٹوٹا اکیڈمی سے واپسی پر ماں کا ماتھا چوم کرسیدھا کمرے میں گیا اور پھر اپنے پاؤں پر دوبارہ چل کر باہر نہ آسکا ... اسکی لٹکتی لاش ملی تھی..... کمرے میں ایک چھٹی بھی ملی تھی جس پر سوری ماما اور بابا کی لائن درج تھی..........زین کے جنازے میں پورا شہر امڈآیا تھا جوان موت پر ہر آنکھ اشکبار تھی سر یاسر نے زین کے والد سے گلے ملتے ہوئے کہا...... زین اچھا لڑکا تھا اسے مرنا
نہیں چاہیے تھا..
������
جواب دیںحذف کریں💔💔😞 khubsort hona b jurm h
جواب دیںحذف کریں