مئی کی چوبیس تاریخ کو ریاضی (دشمنِ طالب علم) کا پرچہ تھا.رات گئے فلمیں دیکھنے کے بعد پیپر کی تیاری ایک دم چکاس تھی.دوپہر دو بجے پیپر کا وقت رول نمبر سلپ پہ درج تھا. امتحانی مرکز قریب ہونے کی وجہ سے میں ہمیشہ دس منٹ پہلے گھر سے نکلا کرتا تھا لیکن آج دشمن سے جنگ کرنے اور اسے ہرانے کا تحیہ کر رکھا تھا مگر قسمت کی دیوی دیوتا کے ساتھ بھاگ نکلی جب راجہ بازار میں گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھ کر پیپر مس ہوتا دیکھائی دیا لیکن ہمت نہیں ہاری میں بھی آخر پنڈی بوائے تھا بائیک کو گاڑیوں کے بیچ و بیچ گزارتا ہوا امتحانی مرکز پہنچ گیا.گھڑی پر ٹائم دیکھا تو بلی ہی بیٹھ گئی او شٹ بے اختیار منہ سے نکلا لیکن بھاگتا ہوا امتحانی ہال کے اندر داخل ہوا۔۔۔۔
میاں کدھر آرہے ہو؟ بلغمی آواز میں بڈھا نگران بولا۔۔۔!
میں نے گردن گھما کر دیکھا کہیں میرے پیچھے پیچھے میاں خلیفہ تو نہیں آگئی نہ میری شکل میاں نواز شریف سے ملتی ہے..پھر میاں کون؟
سر مجھے کہہ رہے ہیں؟میں نے معصومیت سے پوچھا
ابے سستے سکول کے طالب علم تجھے ہی کہہ رہا ہوں
ٹھنڈی سی جگت لگاتے ہوئے سر نے کہا..
گرمی میں ٹھنڈی جگت اے سی والے روم سے کم نہیں۔
مجھے ٹھنڈی جگت سے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس بندے کا تعلق فیصل آباد سے ہے.بہرحال منت ترلے کرنے کے بعد میں اپنی نشست پرجاکے بیٹھ گیا.اگلی سیٹ پر بشیر گنجا جو میری طرح ریاضی میں لگاتار دوسری دفعہ بھی سپلی لے کے بیٹھا ہوا تھا مجھے دیکھ کر خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہا تھا.میں نے اسے حوصلہ اس کی دھوڑں میں تھپڑ مارتے ہوئے دیا۔۔
اسی دوران آواز گونجی۔۔۔
کس کس تو پیپل نہیں ملا ہاتھ تھلا کلے
(کس کس کو پیپر نہیں ملا ہاتھ کھڑا کریں)
سر توتلے تھے جن کی وارننگ پر اکثر ہاسا نکل جاتا تھا..
میں نے بھی کھڑا کردیا..ہاتھ سر توتلہ جی نے پیپر تھمایا اگے بڑھ گئے
چونکہ سپلیمنٹری پرچہ تھے اسی لیے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ہونہار طالبہ اور طالبات بھی ساتھ پرچہ دے رہے تھے.میں نے پیپر دیکھا تو سر میں درد ہونے لگ گیا۔گردن کو ذرا سے دائیں طرف گھومایا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔۔حسینہ افف افف کرتی پیپر حل کر رہی تھی۔۔
لمبی ناک۔۔جھیل جیسی آنکھیں اور ان میں لگا کاجل۔۔ہونٹ تو بس۔۔تباہی تھے۔۔گردن پر تل۔۔جو چوکیدار بنا بیٹھا تھا۔۔۔میری نظریں جوں ہی پاؤں پر پڑی تو میرے دل کی دھڑکن رک گئی۔۔آنکھوں کے سامنے اندھیرا آنے لگا۔۔۔۔ بھئی ان پاؤں پر کسی ناہنجار نے جادو تو نہیں کروا دیا۔
او کھوتی دیا مینوں وی دس۔۔
بشیر گنجے نے مدھم آواز میں التجاکی
آواز سنتے ہی میں ہوش میں آیا۔۔وگرنہ میں بلہوش ہونے والا تھا
ابا جی میں تے لکھ لواں نہ پہل
میں نے گنجے کو بے عزتی بخشی۔
اب میں پیپر حل کرنے لگا تھا کہ اچانک ایک پتلی سی آواز گونجی
سر۔۔۔!کتنا ٹائم رہ گیا ہے؟
پیپر کے دوران ٹائم پوچھنے والوں سے سخت نفرت ہے۔۔ابھی تو پیپر شروع ہوا تھا کس کو موت پڑ گئی
لیکن وہ آواز۔۔ہائےےے برباد کرنے دینے والی۔۔سب غصہ نفرت اڑا کے لے گئی۔میں نے عاشقی کو سائڈ پر رکھ مارا
اپنے پرچے کو حل کرنے لگا ۔سترواں سوال حل کر رہا تھا جب مجھے دائیں طرف سے آواز آئی۔۔۔سنوووو
میں نے دیکھا تو میرے سے مخاطب تھی۔
میں خواب تو نہیں دیکھ رہا کہیں اسی اثنا میں نے اپنے آپ کو دندی وٹی
میں نے بھی سمائل دے کر کہا۔۔۔
جی فرمائیے۔۔۔
بولی۔۔۔چھٹا سوال آتا ہے؟؟؟
میں نے سر کو جھٹک کر ہاں میں جواب دیا اور جیب سے صفحہ نکال کر اس پر جواب تحریر کیا۔۔
جس کا لب لباب یوں ہے۔۔
السلام وعلیکم۔۔۔
افریقی پاؤں والی پرنسزز۔۔۔!
امید ہے آپ خیریت سے ہونگی۔مجھے ریاضی آتی ہوتی تو آج تیسری دفعہ پیپر نہ دے رہا ہوتا۔براہ مہربانی منہ پر فائزہ بیوٹی کریم لگانے کے ساتھ ساتھ پاؤں پر بھی لگائے اور اگر پھر بھی فرق نہیں پڑتا تو چونا استعمال کریں۔۔اور ہاں آموں کا موسم ہے آم چو پیں۔۔ شکریہ۔۔۔ آپ کی بائیں طرفہ بیٹھا معصوم گل۔۔
صفحے کو چوم کر اس کی طرف پھینکنا چاہا لیکن سامنے سے توتلہ جی کو آتے دیکھ کر بلاخوف پھر بھی پھینک دیا۔۔توتلہ جی کرپٹ نگران تھے۔۔میں نے اپنی جوابی کاپی کے خالی صفحوں پر کراس لگانے شروع کردئیے ساتھ ساتھ اس بلیک کی طرف بھی دیکھتا جارہا تھا۔اس بلیک نے پرچی اٹھا لی تھی اسے جلدی جلدی کھول کر پڑھنے لگی ہر لائن پڑھنے کے بعد اس کے چہرے کی رنگت غصے سے کالی ہوتی جارہی تھی اسی دوران میں پیپر نگران کے حوالے کرنے اٹھا ۔۔ میں واپسی جانے کے لیے قریب سے گزرا تو در فٹے منہ وڈے منہ الیا جیسی تعریفیں سنائی دی اس بار وہ کلیئر تھی لیکن مجھے اس کا منہ دیکھ کر ہنسی آرہی تھی میں نے آنکھ مار کر جوابی مسرت کا اظہار کیا اور امتحانی مرکز سے نکل گیا۔۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں