ماں کی شان
جب بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو وہ اپنے ارگرد موجود تمام انجان چہروں کو دیکھ کر روتا ہے جہنیں آگے زندگی میں چل کر اس نے اپنے رشتہ داروں کانام دیناہوتا ہے مگر اسے جس چہرے کو دیکھ کے سکون قلبی نصیب ہوتی ہے وہ اس کی ماں کا چہرہ ہے جسے دیکھ کر سب اپنی پریشانیاں،دکھ ،غم بھول جاتے ہیں۔کیونکہ ماں کہ قدموں تلے جنت ہے ۔اس ہستی کا کیا کہنا جس کہ قدموں تلے اللہ نے جنت رکھی ہے اس جنت کی خدمت کرکے آپ اپنے لیے جنت بنا سکتے اگلی آنے والی زندگی میں جس پر ہم سب مسلمانوں کا یقین ہونا لازم ہے جو ایک نہ ختم ہونے والی زندگی ہے۔
یوں تم لاکھ دعوے کرتے ہیں ماں باپ کی خدمت کا لیکن اس پر میرے سمیت کوئی عمل نہیں کرتا اور انسان کی فطرت ایسی ہے جو چیز اس کے پاس ہوتی ہے اسے اس کی قدر نہیں ہوتی جب وہ اسے دور ہوجاتی ہیں تب اسے اس کی قدر آتی ہے لیکن وقت اور موقع دونوں ہاتھ سے نکل چکے ہوتے ہیں ۔آج کل کی اولاد ان کا کیا ہی کہنا جب والدین کی خدمت کا وقت آتا ہے تو انہیں اولڈ ہوم بھیج دیتے ہیں بھئی اولڈہوم کس لیے وہ خیال رکھیں گے نہ۔ہم تو مصروف ہوتے ہیں اپنے بزنس میں.کالج کہ دور میں ہمارے سر ہوا کرتے تھے اللہ انہیں صحت عطا فرمائے اور ان کے والدین کو لمبی عمر عطا فرمائے ۔آمین ! وہ اکثر ہم سے کہتے تھے کہ جو بھی ہوجائے یعنی بہترین نوکری بھی تمہیں کیوں نہ مل جائے مگر کبھی ماں باپ کو اکیلا چھوڑ کہ دیار غیر میں نہ جانا بلکہ یہاں ان کی نظروں کے سامنے رہنا اور انکو نظروں کے سامنے رکھنا ۔اور آج ہم انکی خدمت کرنے کی بجائے انہیں اولڈ ہوم والوں کہ حوالے کردیتے ہیں ۔
ٓآج کے دور کا سب سے بڑا مسئلہ جہاں والدین ہمارے بھلے کے لئے جو بات کرتے ہیں ہم ان باتوں کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے ۔اور نیتجہ ناکامی کی صورت میں ہمارے سامنے ہوتا ہے کیونکہ اس کام میں انکی دعائیں شامل نہیں ہوتی۔ لہذا انکی دعائیں زیادہ سے زیادہ حاصل کریں۔۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے۔
خدا کی جنت کو دنیا میں دیکھنے کا شوق ہو !
توفقط اک با ر ماں کی گود میں سو کر دیکھنا
اس فرمان سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے ماں کی شان کیا ہے اس فرمان کومدنظر رکھتے ہوئیں میں آپ سے اپنا ایک واقعہ شیئر کرنا چاہوں گا
ایک روز میں کالج کے بعد گھرآیا سردیوں کے دن تھے میرے سر میں شدید درد تھا میں نے امی سے اپنی طبیعت کا ذکر کیا امی نے کہا ادھر آو میں دم ڈال دیتی ہوں تمہا را سر درد ٹھیک ہوجائیگا ۔تم بلکل بھی اپنا خیال نہیں رکھتے ۔نہ ٹوپی پہنتے ہو نہ مفلر ماں کی اس فکرمند سوالوں کے بعد میں مسکرایا اور ماں کی گود میں سر رکھ دیا۔ پھر ماں کا ہاتھ میرے سر پر اس شفقت کہ ساتھ چلتا رہا اور لبوں پر ورد۔جانے کب نیند نے جھکڑلیا۔ بس جب میں بیدار ہوا تو وہ آدھے گھنٹے کی نیند جو میں نے کی آج دن تک ایسی سکون کی نیند میں نہیں سویا۔
کل شب رکھا جو اپنی ماں کی گود میں سر
دنیا میں ہی کرلی میں نے جنت کی سیر
کل شب رکھا جو اپنی ماں کی گود میں سر
دنیا میں ہی کرلی میں نے جنت کی سیر
ماں باپ جس طرح اولاد کے حقوق اداکرتے ہیں اس کے باوجود آج کل تو والدین کی خدمت کرنے کی بجائے انہیں اولڈ ہوم لے جاتے ہیں اور کچھ ایسی وجہ بتاتے ہیں کہ انہیں زہنی مریض بتا دیتے ہیں وہاں سالا سال پڑے رہتے ہیں ان کا پوچھنے بھی نہیں جاتے جو لوگ ماں باپ کے ساتھ یوں کرتے ہیں انہیں یہ بات زہن میں رکھنی چاہیے یہ آج جو آپ اپنے ماں باپ کے ساتھ کر رہے یہ کل آپ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوگا ۔خدارا اپنے ماں باپ کی قدر کریں۔
والدین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہوتے ہیں قیمتی اثاثہ
جیسے اسکے والدین خوش اور راضی نہیں اس سے اللہ بھی راضی نہیں!
والدین کے نافرمان کی سزا ۔
فرمان مصطفی ﷺ!
جس نے اپنے والدین کو گالی دی اس کے سر پر جہنم میں اس قدر آگ کے انگارے برسیں گے جس قدر آسمان سے زمین پر بارش کے قطرے برستے ہیں۔
اللہ ہمیں والدین کی نافرمانی سے بچائے ۔آمین
آج کے دورمیں ہمارے پاس وقت نہیں کے ماں باپ کے پاس جا کر بیٹھے ان سے باتیں کریں بھئی کیو ں ہم موبائیل فون استعمال نہ کریں اس ٹیکنالوجی نے جہاں ہمیں فائدہ دیا اور بہت سے کام آسان کیے ہیں وہاں ہم سے کافی کچھ چھین بھی لیا ہے ہمارے پاس اس کے لئے وقت موجود ہے مگر افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہاں ہم سے اس نے والدین کے پاس بیٹھنے کا وقت چھین لیا ہے ہمیں کوئی خبر نہیں کہ وہ کیسے ہیں اولاد کے ماں باپ پر جو حق ہیں وہ انہیں ادا نہیں کرتی ۔اللہ ہمیں والدین کا فرمانبردار بنائے جن کے والدین نہیں اس دنیا میں اللہ انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے ہمیں اپنے والدین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین۔
کل میں نے اک پوسٹ پڑھی مجھے وہ بے حد پسند آئی وہ کچھ یوں تھی۔لڑکیاں ہر چیز سے ڈر تی ہیں مگر جب وہ ماں بنتی ہے تو ہر مشکل سے لڑجاتی ہے۔جب عورت ماں بنتی ہے تو اس پہ کافی زمہ داریاں آجاتی ہیں بچوں کی دیکھ بھال کرنا پھر شروع دن سے لے کر مرنے تک بچوں کی پرواہ صرف ماں ہی کرسکتی ہے اس زمہ داری کے ساتھ اس نے زندگی میں آنے والے تما م مشکلوں سے لڑنا ہوتا ہے ۔
والدین اندھیرے کمرے میں لگے اس بلب کی مانند ہے جو روشن ہوتے ہی سارے کمرے کو روشن کر دیتا ہے اور جب بلب نہیں ہوتا تو بس وہ کمرا اندھیرے میں گرا رہتا ہے تبھی تو نہیں کہتے ہیں کے ماں کے بغیر گھر قبرستان ہے۔
موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب جاکر کہیں تھوڑا سا سکون پاتی ہے ماں
یہ شعر حقیقت پر مبنی ہے ماں آرام کرتی ہی تب ہے جب اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتی ہے مگر ساتھ ساتھ وہ کتنوں کو اداس کر جاتی ہے کتنوں کو اکیلا چھوڑ جاتی ہے ۔کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں ۔اور کچھ نہیں بس اُن سے اُن کا سکون دور ہوجاتا ہے اُن کے لیے دنیا اس دن ختم ہوجاتی ہے جس دن ان کی جنت اس دنیا میں نہیں رہتی ۔اسی طرح جب جوان بچہ مر جاتا ہے تو ماں پر کیا گزرتی ہے باپ تو ویسے بھی ہزاروں خواہشات جو اس کے دل میں ہوتی ہیں۔
اس دن ہی دبا لیتا ہے جس دن وہ باپ بنتا ہے بس پھر ساری خواہشات اپنے بچوں کی ہی پوری کرتا ہے ۔وہ اپنے جوان بچے کی وفات پر ٹوٹتا تو ہے مگر وہ مضبوط ہونے کی وجہ سے دل ہی دل میں روتا ہے جب دل دکھتا ہے توآنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔ ۔اللہ ہم سب کے والدین کو لمبی زندگی عطا کرے اور جن کے والدین نہیں اس دنیا میں اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقا م عطا کر ے اور انکے گھر والوں کو صبر دے۔آمین ثم آمین
اک دن میں سکول ماں کے ہاتھوں کابنا ہوا سویٹر پہن کے گیا۔کلاس میں اپنی کرسی پر بیٹھنے کے بعددوست نے دیکھ کر تعریف کی اور کہا ۔ یارایسی سویٹر میں نے بھی لینی ہے یا تو ایسا کر یہ مجھے دے دے میں نے اُسے کہا جانی یہ بازار سے نہیں لی یہ میری امی نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے چل جا اپنی امی کو بول وہ بنا دی گی یہ بات کہنی تھی کے اس کے چہرے کے آثار بدلے جیسے اس نے دنیا کے غموں نے آگھیرا ہومیں نے اسے اس وقت وجہ پوچھنی مناسب نہیں سمجھا بہر حال تفریح ہوئی وہ اک کونے میں اداس بیٹھا ہوا تھا میں اس کے پاس چل کے بیٹھ گیا اسے کہا یار سوری تو ناراض ہوگیا میرا ہرگز ایسا مطلب نہیں نہ تیرا دل دکھانا میرا مقصد نہیں تھا اس نے اسی دوران اپنی دم سی توڑتی آواز میں کہا مجھے تیری کوئی بات بری نہیں لگی بس ماں کی یاد آگئی میری ممی کا انتقال ہوچکا اس دن کے بعد میں نے کبھی ایسی بات نہیں کہی اور اس کو سب سے پیاری سویٹر اس کی سالگرہ پر گفٹ کر دی انمعاملوں میں بہت کمزور دل ہوں
کچھ بدقسمت لوگ ہوتے ہیں جو والدین کے فیصلوں سے اختلاف کر جاتے ہیں پھر وہ زندگی میں ٹھوکریں ہی کھاتے ہیں کیونکہ جس کام ماں باپ کی رضا شامل نہ ہو اُس کام میں انسان کی مدد اللہ بھی نہیں کرتا ۔ماں باپ کے فیصلوں کی قدر کریں کیونکہ وہ آپ کے لیے اچھا سوچھتے ہیں جب آپ ان کے فیصلوں کو دل و جان سے قبول کریں گے ساری زندگی خوش رہے گے ۔
کچھ بدقسمت لوگ ہوتے ہیں جو والدین کے فیصلوں سے اختلاف کر جاتے ہیں پھر وہ زندگی میں ٹھوکریں ہی کھاتے ہیں کیونکہ جس کام ماں باپ کی رضا شامل نہ ہو اُس کام میں انسان کی مدد اللہ بھی نہیں کرتا ۔ماں باپ کے فیصلوں کی قدر کریں کیونکہ وہ آپ کے لیے اچھا سوچھتے ہیں جب آپ ان کے فیصلوں کو دل و جان سے قبول کریں گے ساری زندگی خوش رہے گے ۔
مجھے یہاں واقعہ یاد آگیا جواکثر دادی (اللہ بخشیں انہیں)سنایا کرتی تھیں کہ بادشاہ ہوا کرتا تھا اک دن اُس نے اپنے وزیر کو بلایا اور کہا کہ کل شام تک تم اس دربار میں سب سے پیارا بچہ لا کر دو وزیر نے حکم سنا اور چلا گیا وہ سارا دن پھرتا رہا اور شام کو اپنے بیٹے کو ہی لے گیا ۔بادشاہ کے سامنے حاضر ہو ا بادشاہ نے دیکھ کر کہا میں نے تمہیں کہا تھا سب سے پیارا بچہ لا اور تم یہ کالے کلوٹے اپنے بچے کوہی اُٹھا لے آئے ہو تو وزیر نے مسکرا کر کہا
بادشاہ سلامت میں نے بہت سے بچے دیکھے مگر مجھے اس کے علاوہ کوئی بچہ بھی پیارا نہیں لگااسلیے اس ساتھ لے آیا تو اس کہانی سے پتہ لگتا ہے کہ ماں باپ کو اپنی اولاد کس قدر پیاری ہو تی ہے۔دعا ہے اللہ ہمیں اپنے والدین کا فرمانبردار بنائے اور انکی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین۔
بلا گ کے بارے میں رائے کمنٹ میں لازمی دیں۔
بادشاہ سلامت میں نے بہت سے بچے دیکھے مگر مجھے اس کے علاوہ کوئی بچہ بھی پیارا نہیں لگااسلیے اس ساتھ لے آیا تو اس کہانی سے پتہ لگتا ہے کہ ماں باپ کو اپنی اولاد کس قدر پیاری ہو تی ہے۔دعا ہے اللہ ہمیں اپنے والدین کا فرمانبردار بنائے اور انکی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین۔
بلا گ کے بارے میں رائے کمنٹ میں لازمی دیں۔
Beshakk maan Baap ka koi naimobadal nahi hota...
جواب دیںحذف کریںAllah Ta'ala hum sabko apne maan baap ka taabedaar banayen aur unkaa saaya humesha sabb per qayamm rakhein...
Ameen... ����