دسمبر کے مہینے کا آخری ہفتہ تھا کالج میں ایک کلاس لگانے کے بعد دل کیا کے دوسری نہ لگائی جائے اس لیے کلاس چھوڑ کر جیسے باہر نکلنے کیلے گیٹ کی طرف جانے لگا تو دیکھا کے ایک ہجوم لگا ہے نوٹس بورڈ پر مجھے تجسس ہو ا کہ کیا ایسی خاص بات نوٹس بورڈ پر جب میں نے دیکھا تو خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ کے طالب علم کو جتنی خوشی چھٹیوں کی ہوتی ہے اور کسی کو بھی ایسی خوشی نصیب نہیں ہوسکتی ۔خوشی اس لیے بھی زیادہ تھی کیونکہ میں نے چھٹیاں لے کہ گلگت جانا تھا لیکن پرنسپل کے سوالات سے ڈر لگتا تھا۔اس لیے خوشی خوشی گھر کے لیے راونہ ہوا
اگلے ہی دن میں شاپنگ کرنے کے لیے بازار چلا گیا وہاں ضرروت کی چیزیں لی جو مجھے ٹھنڈ سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتی تھیں ۔گھر آیا سب سے ضروری گھر والوں کی اجازت تھی ان سے اجازت ملنے کے بعد میں نے تیاری مکمل کرلی ۔عشا کی نماز پڑھی اور سونے کیلے کمرے میں چلا گیاویسے سب کے ساتھ ہوتا ہے جب انسان زیادہ خوش ہو تو نیندنہیں آتی اسی تگ ودو میں ناجانے کب نیند آئی جب آنکھ کھلی تو ااذانیں ہورہی تھی ۔اُٹھا نماز پڑھی اور اچھے سفر یعنی خیروعافیت والے سفر کیلے دعا کی نماز سے فارغ ہونے کے بعدمیں نے قرآن پاک کی تلاوت کی اس کے بعد کچھ دیر موبائیل کے ساتھ لگا رہا اسی دوران امی کی آواز آئی کے بیٹا ناشتہ کرلو ناشتہ کرنے کے میں تیار ہو ااور ساتھ اپنا لیپ ٹاپ اور یادوں کو محفوظ کرنے کے لیے کیمرہ بھی لے لیا۔آٹھ ساڑھے آٹھ میں گھر سے چل پڑا بس اڈاے کی طرف وہاں گلگت جانے والی بس میں بیٹھ گیا اس میں شروع سے چند افراد سوار تھے کلاس روم میں آخر میں بیٹھنے کی طرح میں بس میں آخری سیٹ پہ بیٹھ گیا اور بس کے بھرنے کا انتظار کیا۔تقریبا آدھا گھنٹہ بس کو فل ہونے میں جب سواریاں مکمل ہوئیں تو بس ڈرائیور بھی آکے بیٹھ گیا بس اللہ کا نام لیا سب نے سفر پر روانہ ہونے کی دعا پڑھی
سفر کو زیادہ میں انجوائے نہیں کرتا تھا کیونکہ میرا پہلا ایسا سفر تھا جو میں نے اکیلے کیا اور سفر کو میں نے سو کے انجوائے کیا ایک لمبے سفر کے بعد بالآخر میں گلگت پہنج گیا ساتھ مسافر نے کہہ کے جگا دیا اور کہا بھائی سارا سفر سوئے رہے کچھ زیادہ ہی تھکن تھی یہ رات بھر سوئے نہیں ۔میں نے اس کا جواب صرف مسکراکر دے دیا بعدمیں نے اسی بندے کی مدد سے ہوٹل ڈھونڈا کیونکہ تھکن بہت تھی آرام بھی کرنا تھا ۔اللہ اللہ کر کے ہوٹل ملا مجھے تو ہوٹل عجیب سا لگا جیسے کوئی ویران گھر بہر حال مجبوری اور سٹوڈنٹ کے لیے بہتر تھا ۔کمرہ میں گیا اپنا سامان رکھا
\
بس بیڈ پہ آرام کی غرض سے لیٹ گیا تھکن ہونے کی وجہ سے کب آنکھ لگ گئی پتہ ہی نہیں لگا ۔ایک پرسکون نیند کے بعد میری آنکھ صبح چھ بجے کھلی میں اٹھا وضو کیا پانی انتہا ئی ٹھنڈا پر کرنا تو تھا اس لیے برداشت کیا نماز پڑھی اور کھڑکی سے باہر کا نظارہ کیا باہر تو تقریبا ہر شے نے برف کی سفید چادر اوڑھی ہو کیونکہ رات بھر خوب برف پڑھی تھی کچھ دیر خوبصورت منظر کو دیکھنے کے بعد میں ناشتہ کرنے کے لیے چلا گیا ۔ہوٹل قریب ہی تھا ۔
ناشتہ کیا ناشتہ کرنے کے بعد واپس روم میں آیا ۔بس تیار ہوا اپنا سامان اٹھایا۔اورنکل پڑا دیو سائی کے لیے
شدید برف پڑنے کے بعد دھوپ نکل چکی تھی۔وہ سب میں اپنی نظروں سے دیکھ رہا تھا جو منظر تصویر وں میں دیکھا کرتا تھا ۔خاموشی ،ہوا کی سرگوشی ،تیز دھوپ اورٹھنڈی ہوا ئیں ان سب نظاروں کو دیکھتے ہوئے ان میں کھو ساگیا وقت کم اور سفر بہت تھا اس لیے وہاں کی چند تصویریں لی اور کچھ سلیفیاں۔بہر حا ل تھکن اور بھوک کی شدت کی وجہ سے میں نے اپنے سفر کوبریک لگائی اور اس محاورے پر عمل کیا پہلے پیٹ پوجا فیر کام دوجامگر۔کھانا خوب رج کے کھایا سردی بھی کافی تھی کھانے کے بعد کھانے کو ہضم کرنے کیلے ایک سگریٹ لگایا ابھی کش کے بعد نکلنے والے دھوئیں کا مزہ لے رہا تھا کے ایک طمانچہ کیسی نے منہ پر رسید کیا دیکھنے کیلے مڑا لیکن اس زور سا کمر پر کسی نے لوہے نما چیز ماری کے بس پھر ہل نہ سکاکچھ زخم ہرے سے ہوگے ایک نقاب پوش آدمی سامنے کھڑا ہوگیا اور اس نے اس رفتار سے مارا اور اس کی ایک آواز سنائی دی اُٹھا لو سب کچھ مجھے زیادہ ہوش نہیں تھی کیا کچھ ہوا میرے ساتھ جب ہوش آئی تو میں وہی اسی کرسی پر بیٹھا تھا مجھے لگا جیسے میں خواب دیکھ رہا ہوںآنکھ کھلنے پر اندازہ ہوا کہ وہ بھیانک سچ تھا میں بالکل لُٹ چکا تھا بس کپڑوں کے علاوہ کچھ نہیں تھامیرے پاس نہ بیگ نہ میرا لیپ ٹاپ جس میں میری یادیں تھی ایسی یادیں کے بس بیان نہیں کیا جاسکتا اور کیمرہ جو پیسے جوڑ جوڑ کر میں نے لیا تھا سب ایک پل میں ختم ہوگیا ان سب چیزوں کو کھونے کے بعد بس میں اٹھا میرے لیے چلنا انتہائی دشوار تھا پھر بھی میں کر کرا کے چل دیا شام ہونے والی تھی اور میں بے بس بے یاروں مدگار کیونکہ میرے ساتھ اور بھی سیاح لٹ چکے تھے وہ رات میں نے گزاری یہ میں اور میرے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا شدید ٹھنڈ اور رات بھر دیوار سے لگ کے کچھ دیر نیند اور کمر میں شدید دردان سب ازیتوں کو برداشت کیا اگلے ہی اسی ہوٹل آیا ہوٹل والے کو اپنی کہانی سنائی وہ رحم دل بندہ تھا اس نے کھانا بھی کھلایا اور کچھ پیسے بھی دیے ۔وہ واپس گھر آنے کیلے ناکافی تھے مگر پھر بھی اڈے تک آگیا رات کا درد خود ہی زور دیکھا کے کم ہوگیا تھا مگر چلنے میں دشواری تھی اڈے تک آیا بسوں کے تقریبا
آدھے ڈرائیوروں کو اپنی داستان سنائی کوئی بھی سچ ماننے کو تیار نہیں اسی تگ ودو کے بعد میں مایوس ہو کے ایک کونے میں بیٹھ گیا اسی دوران کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا جب میں نے سر اُٹھا کہ دیکھا تو وہ انہی میں سے ایک ڈرائیور تھا جن کے کچھ دیر پہلے میں نے منت ترلے کیے تھے اس نے کہا ایک شرط تمہیں لے کے جاو گا میں مجبور تھا ہاں کر دی ااس نے کہا تم سیٹ پر نہیں بیٹھو گے اور پہنچ جانے کے بعد تمہیں میری بس کی صفائی کرنی ہوگی میں نے ہاں کر دی ان شوٹ میں نے سفر کیا چھ سات گھنٹے کا وہ بھی کھڑے ہوکر کبھی بیٹھ جاتا اسی میں گزر گیا سفر بس پہنچا میں اپنی شرط پوری کرکے گھر جانا چاہتا تھا اسی لیے اپنی جیکٹ اتاری اور بس کی صفائی شروع کی مجھے اس ٹھنڈ میں پتہ لگا نہیں کے میں ٹھنڈے پانی سے کتنی دیر تک لگا رہا اس کہانی کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ مصیبتیں بتا کی نہیں آتی ہمیں بس صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ۔۔
\
بس بیڈ پہ آرام کی غرض سے لیٹ گیا تھکن ہونے کی وجہ سے کب آنکھ لگ گئی پتہ ہی نہیں لگا ۔ایک پرسکون نیند کے بعد میری آنکھ صبح چھ بجے کھلی میں اٹھا وضو کیا پانی انتہا ئی ٹھنڈا پر کرنا تو تھا اس لیے برداشت کیا نماز پڑھی اور کھڑکی سے باہر کا نظارہ کیا باہر تو تقریبا ہر شے نے برف کی سفید چادر اوڑھی ہو کیونکہ رات بھر خوب برف پڑھی تھی کچھ دیر خوبصورت منظر کو دیکھنے کے بعد میں ناشتہ کرنے کے لیے چلا گیا ۔ہوٹل قریب ہی تھا ۔
ناشتہ کیا ناشتہ کرنے کے بعد واپس روم میں آیا ۔بس تیار ہوا اپنا سامان اٹھایا۔اورنکل پڑا دیو سائی کے لیے
شدید برف پڑنے کے بعد دھوپ نکل چکی تھی۔وہ سب میں اپنی نظروں سے دیکھ رہا تھا جو منظر تصویر وں میں دیکھا کرتا تھا ۔خاموشی ،ہوا کی سرگوشی ،تیز دھوپ اورٹھنڈی ہوا ئیں ان سب نظاروں کو دیکھتے ہوئے ان میں کھو ساگیا وقت کم اور سفر بہت تھا اس لیے وہاں کی چند تصویریں لی اور کچھ سلیفیاں۔بہر حا ل تھکن اور بھوک کی شدت کی وجہ سے میں نے اپنے سفر کوبریک لگائی اور اس محاورے پر عمل کیا پہلے پیٹ پوجا فیر کام دوجامگر۔کھانا خوب رج کے کھایا سردی بھی کافی تھی کھانے کے بعد کھانے کو ہضم کرنے کیلے ایک سگریٹ لگایا ابھی کش کے بعد نکلنے والے دھوئیں کا مزہ لے رہا تھا کے ایک طمانچہ کیسی نے منہ پر رسید کیا دیکھنے کیلے مڑا لیکن اس زور سا کمر پر کسی نے لوہے نما چیز ماری کے بس پھر ہل نہ سکاکچھ زخم ہرے سے ہوگے ایک نقاب پوش آدمی سامنے کھڑا ہوگیا اور اس نے اس رفتار سے مارا اور اس کی ایک آواز سنائی دی اُٹھا لو سب کچھ مجھے زیادہ ہوش نہیں تھی کیا کچھ ہوا میرے ساتھ جب ہوش آئی تو میں وہی اسی کرسی پر بیٹھا تھا مجھے لگا جیسے میں خواب دیکھ رہا ہوںآنکھ کھلنے پر اندازہ ہوا کہ وہ بھیانک سچ تھا میں بالکل لُٹ چکا تھا بس کپڑوں کے علاوہ کچھ نہیں تھامیرے پاس نہ بیگ نہ میرا لیپ ٹاپ جس میں میری یادیں تھی ایسی یادیں کے بس بیان نہیں کیا جاسکتا اور کیمرہ جو پیسے جوڑ جوڑ کر میں نے لیا تھا سب ایک پل میں ختم ہوگیا ان سب چیزوں کو کھونے کے بعد بس میں اٹھا میرے لیے چلنا انتہائی دشوار تھا پھر بھی میں کر کرا کے چل دیا شام ہونے والی تھی اور میں بے بس بے یاروں مدگار کیونکہ میرے ساتھ اور بھی سیاح لٹ چکے تھے وہ رات میں نے گزاری یہ میں اور میرے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا شدید ٹھنڈ اور رات بھر دیوار سے لگ کے کچھ دیر نیند اور کمر میں شدید دردان سب ازیتوں کو برداشت کیا اگلے ہی اسی ہوٹل آیا ہوٹل والے کو اپنی کہانی سنائی وہ رحم دل بندہ تھا اس نے کھانا بھی کھلایا اور کچھ پیسے بھی دیے ۔وہ واپس گھر آنے کیلے ناکافی تھے مگر پھر بھی اڈے تک آگیا رات کا درد خود ہی زور دیکھا کے کم ہوگیا تھا مگر چلنے میں دشواری تھی اڈے تک آیا بسوں کے تقریبا
آدھے ڈرائیوروں کو اپنی داستان سنائی کوئی بھی سچ ماننے کو تیار نہیں اسی تگ ودو کے بعد میں مایوس ہو کے ایک کونے میں بیٹھ گیا اسی دوران کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا جب میں نے سر اُٹھا کہ دیکھا تو وہ انہی میں سے ایک ڈرائیور تھا جن کے کچھ دیر پہلے میں نے منت ترلے کیے تھے اس نے کہا ایک شرط تمہیں لے کے جاو گا میں مجبور تھا ہاں کر دی ااس نے کہا تم سیٹ پر نہیں بیٹھو گے اور پہنچ جانے کے بعد تمہیں میری بس کی صفائی کرنی ہوگی میں نے ہاں کر دی ان شوٹ میں نے سفر کیا چھ سات گھنٹے کا وہ بھی کھڑے ہوکر کبھی بیٹھ جاتا اسی میں گزر گیا سفر بس پہنچا میں اپنی شرط پوری کرکے گھر جانا چاہتا تھا اسی لیے اپنی جیکٹ اتاری اور بس کی صفائی شروع کی مجھے اس ٹھنڈ میں پتہ لگا نہیں کے میں ٹھنڈے پانی سے کتنی دیر تک لگا رہا اس کہانی کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ مصیبتیں بتا کی نہیں آتی ہمیں بس صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں