اتوار، 14 مئی، 2017

استنبول کی ایک شام





استنبول کی ٹھنڈی شام،ہمیشہ کی طرح انور کے ساتھ خلیل کے کافی شاپ پرجانے کا اتفاق ہوا۔انور آج کافی چپ چپ تھا ڈرائیونگ کے دوران بھی وہ اک لفظ تک نہ بولا وگرنہ اسے چپ کرنا بہت ہی مشکل کام تھا فیصل آبادی تھا اور جگتیں لگانے میں یدطولی رکھتا تھا۔دس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم خلیل کے کافی شاپ پہنچے،خلیل نے گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا ہمارا کونے والا ٹیبل مختص تھا ہم دونوں اکثر وہاں بیٹھ کر ڈھیروں گپیں لگایا کرتے تھے مگر آج انور کی خاموشی پریشان کن تھی۔
کیا ہوا جانی بڑا خاموش ہے کسی لڑکی نے دھویا آج میرے لال کو جو لال ہوگیا ہے؟
میں نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا
انور نے میری طرف دیکھا ا سکے آنکھوں میں آنسو تھے،آنکھیں لال سرخ ہورہی تھی آنسو دھڑا دھڑ آنکھوں سے نکل کر ٹیبل پر ٹپک رہے تھے جیسے دل کا غبار دھل رہا ہو،، کوئی پرانا غم تازہ ہوگیا ہو۔۔
انور جانی کیا ہوا۔۔۔میری بات بری لگی سوری یار۔۔میں نے فکرمندانہ لہجے میں پوچھا۔۔۔!
یار امی کی بہت یاد آرہی ہے۔۔
دم توڑتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔
پانچ سال ہوگئے۔ مگر کل رات جب تجھے امی سے بات کرتے دیکھا تو امی کی بہت یاد آئی۔میں تیرہ سال کا تھا جب ماں کا سایہ ہمیشہ کے لیے سروں سے اٹھ گیا ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک،ہماری جنت ہم سے جدا ہوگئی،ماں نے اپنی زندگی میں چار بہنوں کو تو اپنے گھر بھیج کر فرض پورا کیا تھا مگر باپ تو صرف نام کا تھا ۔۔۔!اس کی شکل کبھی زندگی میں نہ دیکھی تھی ماں نے ہی ہمیں باپ کی طرح پالا تھا وہ ماں بھی تھی باپ بھی تھا ہمارا کتنا احمق تھا میں، ماں کو کتنا ستاتا تھا دودھ نہیں پیتا تھا اک دن سکول کے لیے جگانے آئی تو دودھ کا بھرا گلاس دیکھ کر بہت ناراض ہوئی تھی اس دن سے اپنے پاس سلاتی تھی زبردستی کھانا کھلاتی تھی۔۔زرا جوان ہوا تو ماں کی اس مشین کو کوستا تھا جس سے ماں نے میری ہر خواہش پوری کی تھی، اس کی آواز پر غصہ آتا تھا اک دن کہہ دیا ماں اس مشین کو آگ لگا دوں گا اس کی آواز مجھے ڈسٹرب کرتی ہے۔۔ماں تھی کہ چہرے پر غصہ آنے کی بجائے ہنس جاتی تھی۔۔۔ماں کی اہمیت کا اس دن اندازہ ہوا جب اک روز رات میں پانی پینے اٹھا تو برآمدے کی لائٹ کو جلتے دیکھا جب لائٹ بجھانے کےلیے باہر کی طرف گیا تو ماں سردی میں بیٹھے کپڑے سی رہی تھی۔۔۔مجھے اپنی اُس بات پر سخت غصہ آنے لگا تھا مجھ یہ آواز زہر لگتی ہے ڈسٹرب کرتی ہے میں پاس گیا ماں کو گلے لگا لیا اور معافی مانگ لی تھی اللہ سے دل سے توبہ کرلی تھی۔۔اگلے ہی دن کچھ کام ڈھونڈنے کا ارادہ کیا پارٹ ٹائم جاب کی تلاش جاری کردی۔۔خوش قسمتی سے ایک نجی کمپنی میں جاب مل گئی تھی۔۔دل ہی دل میں خوش تھا ماں کو یہ خوشخبری سناؤں گا اب اسے کام نہیں کرنے دوں گا۔میٹھائی لے کر گھر کی طرف راو دوا تھا جوں ہی گالی میں داخل ہوا تو لوگوں کو ہجوم اپنے گھر کے سامنے دیکھ کر موٹر سائیکل وہی چھوڑ کر بھاگا گیٹ پر پہنچا تو تایا اور پھپھو نے کھڑے دیکھا جو روئے جارہے تھے انہوں نے آگے بڑھ کرگلے لگا لیا بیٹا تیری ماں اس دنیا میں نہیں رہی۔
ماں کی وفات کے بعد تو سب نے گلے لگایا مگر جیسے ہی کچھ دن گزرے سب کی اصلیت کھل کر سامنے آنے لگی پھپھو نے گھر سے نکال دیا تھا۔۔گھر پر قبضہ کیے آج تک بیٹھی ہوئی ہے۔میں ماں کی قبر پر جاکر بہت سے سوالات کرتا پر ماں جواب نہیں دیا کرتی تھی۔۔۔کچھ دن تو ماں کی قبر کے ساتھ ہی لپٹ کر دن رات وہاں ہی رہتا۔۔قبرستان سے بہت خوف آتا تھا مگر جب اپنا پیارا دفن ہو تو وہ خوف ختم ہوجاتا ہے۔۔وہ ڈر دور ہوجاتا ہے۔۔چاچا رفیق جو بہت ہی عمدہ اخلاق کے مالک تھے۔۔ ان کا قبرستان کے پاس گھر تھا وہ مجھےکافی دن سے وہاں یوں دیکھ کر اپنے گھر لے آئے تھے باقی زندگی ان کے ساتھ گزری تھی وہ بہترین انسان تھے۔۔۔ماں کی قبر پر ترکی آنے سے پہلے گیا تھا ، گھنٹہ پہلے بہت رویا تھا ندیم مگر وہ نہیں بولی تھی کتنے سوال کیے تھے اس سے لیکن ماں اپنی قبر میں بہت خوش تھی۔۔یار۔۔۔
یہ کہہ کر انور ٹیبل پر سر رکھ کر زروقطار رونے لگ گیا تھا۔۔۔ میں نے بھی اسے رونے دیا تاکہ اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے۔
انسان کی فطرت ہی ایسی ہے جتنی بھی محبوب چیز یا انسان اس کی نظروں کے سامنے ہو تو کبھی اس کی قدر نہیں کرتا جیسے ہی اس کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے تو پھر اس کی یاد آنسو بن کر آنکھوں سے بہنا شروع ہوجاتے ہیں۔ماں وہ عظیم ہستی ہے جس کی برکت سے گھر روشن ہوتا ہے۔وہ شخص جس کی ماں حیات نہیں جب بھی وہ گھر میں داخل ہوتا ہے تو دس بندوں کو آنکھوں کے سامنے پاکر بھی راحت نہیں ملتی کیونکہ اس گھر میں ماں نہیں ہوتی، ماں کا سایہ میسر نہیں ہوتا۔جس گھر میں ماں نہیں ہوتی چھت ہونے کے باوجود سورج کی گرمی اندر تک محسوس ہوتی ہے اگر ماں ہو تو کھلے آسمان تلے تپتی گرمی میں بھی فرق نہیں پڑتا۔۔خدارا ماں باپ کی قدر کریں ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو باپ جنت کا دروازہ ہے۔ماں کی خدمت کرکے جنت کو پا لیا اور باپ ناراض ہوا جنت تک بھی پہنچ گئے،اللہ نہ کرے جنت کے دروازے پر روک لیا گیا پھر کیا کرو گے؟ اس لیے ماں باپ دونوں کی قدر کریں اگر حیات نہیں ہیں تو کو زیادہ سے زیادہ ایصال کریں۔

حضرت سیدنا عوام بن حوشب علیہ رحمتہ اللہ الرب فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میں کسی محلے سے گزرا،اس کےکنارے پر قبرستان تھا،بعد عصرایک قبر شق ہوئی(پھٹی) اور اس میں سے ایک ایسا آدمی نکلا جس کا سر گدھےجیسا اور باقی جسم انسان کا تھا ،وہ تین بار گدھے کیطرح رینکا پھر قبر میں چلا گیااور قبر بند ہوگئ۔ایک بڑی بی بیٹھی سوت کات رہی تھیں۔ایک خاتون نے مجھ سے کہا بڑی بی دیکھ رہے ہو؟میں نے کہا اس کا کیا معاملہ ہے؟کہا یہ قبر والے کی ماں ہے،وہ شرابی تھا ،جب شام گھر آتا ،ماں نصیحت کرتی کہ اے بیٹے اللہ سے ڈر آخر کب تک اس ناپاک کو پیئےگا!یہ جواب دیتا : تو گدھے کی طرح ڈھیچوں ڈھیچوں کرتی ہے۔اس شخص کا عصر کے بعد انتقال ہوا،جب سے فوت ہوا ہےہر روز بعد عصر اس کی قبر شق ہوتی ہے اور یوں تین بار گدھے کی طرح چلا کر پھر قبر میں چلا جاتا ہے اور قبر بند ہوجاتی ہے۔

منقول ہے جب ماں باپ کے نافرمان کو دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے دباتی ہے یہاں تک کے اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتی ہیں۔
اس واقع سے بس اتنا سبق حاصل کرنا چاہیے کہ ہم بھی ماں کے ساتھ بدتمیزی کر دیتے ہیں اونچی آواز میں بات کرتے ہیں۔کیا کچھ نہیں کہہ دیتے۔۔اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔جن کے ماں باپ زندہ ہیں وہ ان کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑیں اور جن کے والدین نہیں اس دنیا میں اللہ انہیں صبر عطا فرمائے آمین۔۔۔

favourite category

...
section describtion

Whatsapp Button works on Mobile Device only