کیونکہ وہ جس گھر میں گئی ان کو اس کی عادتیں پسند نہیں تھیں ، اس لڑکی کو کھانا بنانا نہیں آتا تھا ، اس کا دل ہر وقت میکے میں لگا رہتا تھا ، صبح دیر سے اٹھتی تھی ۔
یہ شکایات ایک بیس سال کی لڑکی پر ایک پچپن سال کی ساس لگا رہی ہے ، یہ الزام ایک ساٹھ سال کا سسر لگا رہا ہے ، یہ الزام ایک تیس سال کا شوہر لگا رہا ہے ۔
بیس سال کی لڑکی کو اپنی عمر اپنے تجربے کے مینار پر کھڑے ہوکر پرکھتے ہیں ، ہمارے گھر ایسا نہیں ہوتا ، ویسا نہیں ہوتا ، یہ ایسا ویسا ایسے کہا جاتا ہے جیسے لڑکی کسی خاندانی نوابوں کے گھر گئی ہو ، جیسے روایتوں کے امین گھر میں گئی ہو ، تم لوگ ہو کیا جو یہ کہتے ہو کہ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا ویسا نہیں ہوتا ؟
بیس سال کی لڑکی جو اپنے باپ کے لاڈ میں پلی ہو ، جو اپنے بھائیوں کے ہاتھ کا چھالا ہو ، ماں کا آنچل چھوڑے کچھ سال ہی ہوئے ہوں ، یہاں تک کہ پڑوس والے چاچا تک ٹوٹ کر چاہتے ہوں ، اس لڑکی کو ایک کمپنی پروڈکٹ سمجھتے ہو ، اس کو ایک مکمل پیکیج سمجھتے ہو ، جس میں تمام صفت موجود ہو اور ایسے موجود ہو جس کو بٹن دباؤ اور سو فیصد درست فنکشن ہو ۔
جہاں اپنی بیٹی بھیجی ہے ان سے بھی تو پتہ کرو ان تمام خامیوں کے باوجود انہوں نے تمہاری بیٹی کو گھر نہیں بھیجا ، اگر وہ لوگ بھی ایسے ہی ہیں تو اس بچی کی وہ خامیاں دور کرو جن طعنوں کی وجہ سے تم لوگوں کو درد ہوتا ہے ، تکلیف ہوتی ہے ، دوسرے گھر کو تکلیف نہ دو ، ساٹھ سال کی بڑھیا اس بچی کو سکھا دو ، پرائمری سے سیکنڈری میں آنے والے بچوں کو ٹیچر چھٹی کلاس کی کتابیں ہی پڑھاتے ہیں ، ان سے میٹرک کے بچوں والی توقع نہیں رکھتے ، نہ ہی چھٹی کلاس کے کورس کو پڑھاتے ہوئے یہ طعنے دیتے ہیں کہ پانچویں کلاس میں یہ سب کیوں نہیں پڑھا تھا ، جیسے اپنے سڑے ہوئے منہ سے کہتی ہو کہ ماں نے نہیں سکھایا تھا ؟
ایک تبصرہ شائع کریں