اتوار، 20 ستمبر، 2020

شیڈز آف لو

 


اچھی لگی تھی وہ مجھے ۔ تھی ہی اتنی اچھی۔

 سفید اپر ،سانولی رنگت اور باریک لب ۔ عینک زدہ چہرہ کے ساتھ لانبے الجھے بال۔ جتنے بھی وہ سلجھا سکتی سلجھا کر آجاتی ۔۔۔ اور اسے دیکھ کر مجھے یوں لگتا جیسے وہ مقدر  کی لکیریں بھی سلجھا سکتی ہے۔

اس نے اپنی بھوری آنکھیں جھپکائیں، اور میں نے بارِ دگر کہا:

"میں تم سے محبت کرتا ہوں۔"

"محبت۔۔۔" وہ ہنس دی۔ "محبت نہ کہو، کرش کہہ سکتے ہو تم۔ محبت تو بہت اوپر کی چیز ہے۔" وہ ہنسی میں بھی اپنے کرش کو ہنستا دیکھ کر ہنس دیا۔

 اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا جواز پیدا ہوگیا تھا۔۔۔ وہ میرے ہاتھ سے سگریٹ چھین لیتی، منہ چڑا دیتی اور ہنستی رہتی۔۔۔ اس کی ہنسی بڑی دلکش تھی۔اور اس کی اسی نے مجھے اکسایا۔

 "اچھا، اب تو محبت ہی ہے نا ۔۔ مجھے تمہارا ساتھ بیٹھنا اتنا اچھا لگتا ہے، تمہیں دیکھنا، اور تمہیں خوش دیکھ کر خوش ہونے کا من کرتا ہے ۔۔۔" میرا اعترافی جملہ میرے اعتراف کا ابلاغ کرنے سے بڑھ کر اس  کے اثبات پر سوالیہ نشان تھا۔

 "اونہوں۔۔۔" اس نے الجھے بالوں سے بھرے سر کو مایوسی بھرا چہرہ لیے گھمایا۔اوں کہتے ہوئے دائیں اور ہوں کہتے بائیں۔۔۔" اسے اُنس کہتے ہیں پگلے۔۔۔" 

 اور میں اس کینڈیڈیٹ کی طرح مایوس لوٹ آیا جس نے سی وی پرجھوٹ لکھ رکھا ہو اور انٹرویو میں پکڑا جائے۔

 کچھ عرصہ گزر گیا ۔۔۔

 میں اپنے جذبات مزید کنسنٹریٹ کر رہا تھا۔۔۔ وہ مجھے اب مشورے دیتی، سمجھاتی، پگلے چھوڑ اس سب کو۔۔۔ مجھ میں رکھا ہی کیا ہے۔۔۔ ڈگری پر توجہ دو۔۔۔ میں بھی مرغِ بادِ نما کی مانند اس پر منحصر تھا، جدھر رخ کردیتی ہوجاتا ۔۔۔کبھی پڑھائی، کبھی سپورٹس، کبھی غالب اور کبھی سندیپ مہیشوری!!!

 اب کی دفعہ اس نے خود ہی پوچھا کہ میرا مشن محبت کہاں تک پہنچا۔۔۔

 "کبھی مجھے چومنے کا سوچا ہے؟"

میں سوچ میں پڑگیا۔ نہیں۔۔۔ میں اس بدن کو میلا کرنے کا سوچ بھی کیسےسکتا ہوں۔۔۔

نرے بدھو ہو تم۔۔۔ عقیدت میں مبتلا بدھو۔۔۔ میں کوئی پیر ہوں؟؟؟ اس دن وہ الجھ ہی گئی مجھ سے۔

 اور بدھو پھر دل کڑا کرکے لوٹ آیا۔۔۔ اب تو میں نے اسے یقین دلانا  ہی تھا کہ مجھے اس سے محبت ہے۔۔۔ میں ہلکی سی آنچ پر جذبات کی ہانڈی چڑھا رکھتا تاکہ وہ مزید گاڑھی ہو، آنسوئوں کا تڑکا لگاتا، مگر بات بن ہی نہ پارہی تھی۔۔۔ 

وہ آئی نہیں یونی ورسٹی۔۔۔ میں نے بھی میسج نہ کیا۔ کرتا تو پوچھتی مجھے مس کر رہے ہو؟بدھو، یہ عادت ہے محبت نہیں!!! میں کیا جواب دیتا؟

لیکن یہ خبر افواہ کی طرح ملی کہ وہ پمز میں کسی وارڈ میں ہے۔۔۔ میں دوڑا گیا۔۔۔ اس کی والدہ بہت پریشان تھیں۔۔۔ ان کا اس کے علاوہ کوئی بھی نہ تھا۔۔۔ میں نے انہیں ایسے میں تسلی دی جب کہ میں خود ٹوٹ چکا تھا۔۔۔

 بلڈ کینسر، اور اتنے ہنستے بستے شخص کو ایسی نکھری جوانی میں کیسے ہوسکتا ہے ۔۔

 یہی سوچ سوچ کر میرا دماغ پھٹتا جاتا تھا۔۔۔ مگر کیا کر سکتا تھا ۔۔ وہ راتیں تھیں کہ دن ؟ دن تھے کہ صدیاں کچھ علم نہ تھا۔۔۔ میں کافر بھی تب مصلے پر تھا۔۔۔ 

 وہ گھلتی جارہی تھی ، میری نگاہوں کے سامنے ۔۔۔  میری شمع ہر رنگ میں جل رہی تھی، اور میں اس امید میں جی رہا تھا کہ سحر قریب ہے! 

ایک دن اس کی طبیعت بہت اچھی ہوگئی۔ کہنے لگی بس آج گھر چلتے ہیں۔ مگر ڈاکٹر نے اجازت نہ دی۔ ڈاکٹر کیمو کرنے نہ کرنے کی شش و پنج میں تھے، جب اس نے چپکے سے آنکھیں موند لیں۔

جب میں اس کو دفنانے کے بعد لوٹا تو اس کی والدہ نے مجھے ایک خط دیا۔

 "کامران، میرے پگلے، بدھو نمبر 1 

تم مجھ سے محبت نہیں کرسکے ناں، سوال کرلیتےتو میں بتا ہی دیتی کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔

کاش مجھے اتنا وقت ملتا کہ تمہیں مجھ سے محبت ہو سکتی۔ کاش تم  نے مجھے چوما ہوتا۔" 

وہ رات ہی عجیب تھی۔۔۔ میں یہ خط پڑھتا جا رہا تھا اور روتا جارہا تھا۔  مجھے شہاب یاد آئے، جنہوں لکھا تھا:

"جب مجھے چندراوتی سے محبت ہوئی اس دن اسے  مرے ہوئے تیسرا روزتھا۔"

مجھے عین اسی سمے امبر سے عشق ہوگیا ۔  پر اک سوال مجھے کھٹکتا ہے ۔ کیا محبت کی جماعت چھوڑ کر بندہ ڈائریکٹ عشق میں پروموٹ ہو سکتا ہے؟

favourite category

...
section describtion

Whatsapp Button works on Mobile Device only