اسکے سامنے اس وقت دو لوگ تھے
ایک وہ شخص
جو ہمسفر تھا
دکھ سکھ کا ساتھی
سالوں کا ساتھ تھا
جس کے ساتھ ہنسی تھی , روئی تھی
جس کے ساتھ مل بانٹ کے کھایا پیا تھا
جس کے ساتھ سالوں گزارے تھے
دوسرا وہ شخص
جس کا نام سنتے ہی دل عجب ڈھنگ سے دھڑک اٹھتا
جس کو دیکھ کر سب بھول جاتا
جس کی آواز اتنے سالوں سے نہیں سنی تھی مگر پھر بھی کانوں کے حافظے میں محفوظ تھی
وہ شخص جسے ٹوٹ کے چاہا تھا
مگر اس نے بدلے میں توڑ کے ذرہ ذرہ کردیا تھا
مگر پھر بھی اب بھی ہر ہر ذرہ اسی کی چاہ میں تھا
وہ دوراہے پہ آن کھڑی ہوئی تھی
ایک سے دل جڑا تھا
تو دوسرے سے زندگی
کس کو چنتی
ایک کو چنتی تو تو دوسرا کھو جاتا
کس موڑ پہ لا کھڑا کیا تھا قسمت نے
ایک وہ تھا جس کے ساتھ کی خواہشیں میں نمازیں رو رو پڑھی تھیں
ایک وہ تھا جس کی وفا پہ عقیدت سے آنکھیں نم ہو جاتیں
ایک وہ تھا
جس نے زندگی کے سالوں اسکے ساتھ اسی کے نام پہ گزارے
ایک وہ تھا جو بیچ راہ میں چھوڑ گیا تھا
ایک وہ تھا جس کی چاہت نہیں کی تھی
ایک وہ تھا جس کے قرب کو ترستی رہی تھی
اس نے کرب سے آنکھیں میچیں
چند سیکینڈ لگے تھے فیصلہ کرنے میں
ایک کو بہت پہلے کھو چکی تھی
دوسرے کو نہیں کھونا چاہتی تھی
اس نے ایک نظر اس شخص کو دیکھا
جو اسکی زندگی تھا
جس نے اسے جیتے جی مار دیا تھا
وہ کہتی تھی مجھے تم سے آخری نظر والی محبت ہے
یعنی اب کبھی یہ نظر کسی اور سے محبت نہیں کر سکتی
آج آنکھ آخری نظر کی محبت کو آخری نظر سے دیکھنے کا کرب سہہ رہی تھی
تو کیسے نہ روتی
دل نے لمحہ لمحہ اسکا ساتھ مانگا تھا
کیسے نہ تڑپتا
وہ دو قدم آگے آئی
روتی آنکھوں ساتھ مسکرائی
سالوں کے ہم سفر کا ہاتھ تھاما
"چلیں..."
ضبط کی کوشش میں روتے روتے مسکرا کے بولی
وہ ہم سفر تھا
اسکے رنگوں کو سالوں سے پہچاننے والا
کیسے نہ پہچانتا اسکے اس دکھ کو
اپنی محبت کو سائڈ پہ رکھ کے فیصلہ کرلیا
اسکے ہاتھ میں سے اپنا ہاتھ کچھینچ اسکا ہاتھ اسکی محبت کو تھمانے لگا
وہ جلدی سے ہاتھ کھینچ کے "نہ" میں سر ہلاتی پیچھے ہٹی
آنسو گال بھگو رہے تھے
چہرہ جھکا لیا
سسکیوں کو ضبظ کرتی وہ تھک رہی تھی
آنسو آواز کی راہ میں بار بار حائل ہوتے
"نہیں"
وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی
"میں آپ کے بغیر نہیں رہنا چاہتی"
ہم سفر سے مخاطب ہوئی
"میں آپ کے بغیر نہیں رہنا چاہتی"
آگے بڑھتی اسکے سینے پہ سر رکھے پھوٹ پھوٹ کے رو دی
اس نے بے اختیار ہو کر اسے اپنے حصار میں لیا
"میں آپ کے بغیر نہیں رہنا چاہتی"
وہ بس ایک ہی جملہ سسکیوں ہچکیوں کے درمیان بار بار بول رہی تھی
تیسرے فریق کو اس وقت وہاں اپنا آپ بے معنی لگ رہا تھا
"تمہیں پتا ہے
تم مجھے دنیا میں سب سے زیادہ پیارے ہو
اسے یاد آیا"
وہ کیا کہتی تھی
اس نے دیکھا
وہ کیا کر رہی تھی
وہ کیسے ٹھکرا رہی تھی آج اسے
وہ بھی کسی اور کے لیے
"میں تمہارے بغیر رہ سکتی ہوں
مگر میں تمہارے بغیر رہنا نہیں چاہتی
پلیز مجھے چھوڑ کے مت جاؤ"
"میں آپ کے بغیر نہیں رہنا چاہتی"
پھر سے اس کا بار بار کہا جملہ سنائی دیا
آواز آہستہ آہستہ مدھم ہو رہی تھی
جیسے روتے روتے نڈھال ہوگئی ہو
کیا یہ وہی لڑکی تھی ?
جو کہتی تھی میں تمہارے لیے ہمیشہ ایسی رہوں گی
ہمیشہ تمہارے لیے "محبت" رہوں گی
پھر آج کیسے بدل گئی وہ
کیوں بدل گئی
آج جب اسکے ساتھ کی چاہ شدت کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی
تو وہ بدل گئی
ساتھ دینے سے منکر ہوگئی
وہ صدمے میں تھا
بے یقینی میں تھا
دھیرے دھیرے وہ الٹے قدموں پیچھے ہٹنے لگا
اب وہاں اسکی کوئی جگہ نہیں بچی تھی
نہ اسکی زندگی میں
اور نہ شاید دل میں
اسی کا تھپڑ اتنے سالوں بعد مزید شدت سے اسی کے منہ پہ مار دیا گیا تھا
اسے بتایا گیا تھا
جب محبت بے مول کرے تو اپنا آپ کتنا بے معنی لگتا ہے
اسے سمجھایا گیا تھا
کہ تنہا چھوڑنے والے خود کیسے تنہا رہ جاتے ہیں
اسے دکھایا گیا تھا
کہ راہ میں چھوڑ کر جانے والے جب کبھی ناکام ہوکر واپس آئیں
تو لازمی نہیں انکو وہ لوگ واپسی پہ منتظر ملیں جنہوں نے انکی منتیں کی تھیں کہ مت جاو چھوڑ کر
اسکا دل چاہا اسے بے وفا کہنے کا
کہنے کا کہ اسے بے وفا کہنے والی خود کیسے بے وفائی پہ اتر آئی
مگر وہ اسے بے وفا نہیں کہہ پایا تھا
کیونکہ وہ بے وفا ہی تو نہیں تھی
اس نے ہمیشہ اسکے ساتھ وفا نبھائی تھی
مگر آج بس وفا کے تقاضے بدل گئے تھے
آج اسے اس کے ساتھ وفا نبھانی تھی
جو اتنے سالوں سے اسکے ساتھ وفا نبھا رہا تھا
وہ نہیں تھی بے وفا
بے وفا ہوتی تو سالوں کے ہمسفر کو چھوڑ کر اسکا ہاتھ تھام لیتی
محبت کو چن لیتی
مگر اس نے وفا کو چنا تھا
وہ جو سوچ رہا تھا وہ بدل گئی ہے
اب سوچ رہا تھا کہ وہ تو اب بھی ویسی ہی تھی
وفا نبھانے کے لیے جان تک قربان کرنے والی
وہ نہیں بدلی تھی
بس وقت بدل گیا تھا
زندگی بدل گئی تھی
اور یہ سب اسکے بدلنے کے نتیجے میں ہی تو بدلا تھا
وہ سست قدموں سے اب سڑک کنارے چلتا جا رہا تھا
شاید مکافات عمل شروع ہوچکا تھا
❤️❤️🙌
جواب دیںحذف کریںBeautiful ❤️❤️
جواب دیںحذف کریں