جمعہ، 18 ستمبر، 2020

شہزادی | اشنال سید

 


"چھوڑو ! جاؤ! کون کہاں کی شہزادی" 

"واپسی پہ میرے لئے بریانی لے کر آنا اوکے" 

(بیٹی نے چھوٹی سی انگلی اٹھا کر رعب و دبدبے والی آواز میں سمجھایا)

"خوامخواہ میں لے آؤں؟ خود بنا کر کھاؤ"

(باپ نے الٹا نخرے دکھائے) 

"مجھے نہیں بنانے آتی نا ابھی، اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی"

(بیٹی نے اپنا سر پیٹا)

"اتنی بڑی اماں ہوگئی ہو بریانی بنانے نہیں آتی"

(باپ نے پانچ سالہ بیٹی کو چھیڑا)  

"بریانی نہیں لائی تو گھر میں نہیں آنے دونگی رات کو باہر ہی سونا پھر"

(بیٹی نے وارن کیا)

"باہر مجھے کتے بلیاں کھاگئے تو؟"

(باپ نے ڈراونی صورتحال پیش کی) 

"اچھا ہوگا کھا جائیں گے، میرے لئے بریانی نہیں لائی تو کھا ہی جائیں تو اچھا ہے"

(بیٹی نے چھوٹی سی ناک کو یوں یوں کیا)

"اچھا لاؤ پیسے دو بریانی کیلئے"

(باپ نے ہاتھ پھیلائے) 

"ادھر آؤ تمہارے والٹ سے نکال کے دوں"

(بیٹی نے انگلی کو آگے پیچھے کرکے پاس آنے کو کہا) 

"جی نہیں یہ میرا والٹ ہے اپنے والٹ سے نکالو"

(باپ نے والٹ دونوں ہاتھوں میں چھپالیا) 

"میرے لئے تو کماتے ہو نا یہ بھی میرے پیسے ہوئے" 

(بیٹی نے ایٹی ٹیوڈ جاری رکھا) 

"نہیں تو اپنے لئے اپنی بیگم کیلئے کماتا ہوں"

(باپ نے مزید پنگا لیا)

"بابا میں بال نوچ لونگی اچھا مستیاں نہیں کرو میرے ساتھ" 

(بیٹی نے ناخن دکھائے)

"بال نوچنے کے بعد بریانی تو نہیں مانگو گی نا؟"

(باپ نے وعدہ لینا چاہا)

"بابا" 

(بیٹی نے بال نوچے)

"جی بابا کی جان"

(باپ نے ہنستے ہوئے بیٹی کو دبوچا) 

باپ بیٹی کی یہ نوک جھونک اگر کسی ایرے غیرے نے سن لی ہوتی تو اس نے کہنا تھا بدتمیز بیٹی لیکن اگر اس باپ سے سوال کیا جاتا تو اس نے نم آنکھوں کیساتھ کہنا تھا میری بیٹی میری زندگی ہے وہ لڑتی ہے تو زندگی مجھ میں سانس لینے لگتی ہے میں جان بوجھ کر اس سے پنگے لیتا ہوں تاکہ مجھے محسوس ہو کہ میں زندہ ہوں_

مگر یہی بیٹی جب سسرال گئی تو ہوا کچھ یوں....

"کسے دکھارہی ہے نخرے ، اپنے یہ نخرے اپنے باپ کو دکھا سمجھی"

(شوہر نے دھکا دیا وہ دور جاگری سر ڈریسنگ ٹیبل سے ٹکرایا ہلکی سی سسکاری منہ سے نکلی) 

"جاکے معافی مانگ میری ماں سے اور بھابھی سے"

"آپ جانتے بھی ہیں میری کوئی غلطی بھی نہیں پھر بھی؟" 

(شوہر کے ہاتھ کا بھاری تھپڑ اپنے حق میں بولے جانے والے اگلے الفاظ سلب کرگیا)

"زبان چلاتی ہے آگے سے"

(شوہر نے بازو سے کھینچ کے کھڑا کیا کمرے سے باہر ماں کے پیروں میں پھینکا) 

"نہیں جارہی اکڑ؟"

(شوہر کی کھیڑی کمر میں گھسی تو درد سے دہری ہوئی) 

" چل نکل اس گھر سے"

(شوہر گھسیٹتے ہوئے دروازے تک لے گیا، جہاں وہ خود کو مزید ہوش میں نا رکھ پائی)

 ایک عورت کو ایک مرد نازوں سے پال کر ایک دوسرے مرد کے حوالے کرتا ہے کیونکہ یہ دنیا کا دستور ہے ، اور دنیا اپنے دستور کے مطابق اس کا حال کرتی ہے، دوسرا مرد اس عورت کیساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کرتا ہے.....


"تمہارے والدین کو یقینا تمہارے اس حال کا نہیں پتا ہوگا" 

(ڈاکٹر نے حواس بحال ہونے پر اس سے پوچھا وہ خاموش رہی)

"کیسے والدین ہیں پھول جانوروں کے حوالے کردیا ہے" 

(ڈاکٹر کو اس پہ ترس آیا)

"یہ فون پکڑو نمبر تو یاد ہوگا نا اپنے والد کا بھائی کا سرپرستوں کو خبر کرو فالتو نہیں ہو تم"

(ڈاکٹر کے ہاتھ سے سیل لیکر اس نے نمبر ڈائل کیا پھر کچھ سوچا اور واپس کردیا)

"میرے باپ کو گزرے تین سال ہوچکے ہیں ، میری بیمار ماں صدمے سہنے کی پوزیشن میں نہیں، میرا بھائی بہت چھوٹا ہے درندروں کا مقابلہ نہیں کرسکتا، جہاں دو سال گزرے ہیں وہاں باقی کی زندگی بھی گزر جائے گی اور ویسے بھی اللہ کسی جان کو اس کی ہمت سے زیادہ تکلیف میں نہیں رکھتا" 

(کسی کی بیٹی زخموں سے چور تھی روم سے باہر انسانوں کے روپ میں درندے مزید درندگی کیلئے تیار کھڑے تھے)

ہر مرد ایسا باپ نہیں ہوتا ہر شوہر ایسا مرد نہیں ہوتا، لیکن...... وہ کچھ مرد.... جو کسی کی بیٹی کو درندگی کی نظر کردیتے ہیں-

خدا کا خوف کیوں نہیں رکھتے؟ 


favourite category

...
section describtion

Whatsapp Button works on Mobile Device only