بدھ، 9 ستمبر، 2020

جب گھر چھوڑ کر نکل گیا

 


آجکل اکثر نوجوان گھر چھوڑ کر دور  جانے کا سوچتے ہیں تو میرے ذہن پر ماضی کی وہ فلم چلنے لگتی ہے جب میں گھر بغیر بتائے چھوڑ کر چلا گیا.

بابا سخت مزاج تھے ان کی اس مزاج سے اکثر تنگ آکر میں گھر سے نکل جانے کے طریقے تلاشتا تھا مجھے سپورٹ اور پیار کرنے والے والدین بس ٹی وی ڈراموں میں ہی نظر آتے تھے باہر کی دنیا میں جب کسی کو کہتا سنتا تھا کہ میرے ابو ایسے ہیں ہمارے ساتھ اتنا پیار کرتے ہیں تو ایک احساس محرومی پیدا ہوتی تھی

ایک دفعہ ڈانٹ ڈپٹ اس قدر زیادہ ہوئی کہ مجھے ایسا قدم اٹھانا پڑا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا میں اور میرا کزن جو میری طرح اپنے دادا کی پابندیوں سے تنگ آگیا تھا دونوں نے مل کر  لاہور جانےکا فیصلہ کیا ہمارا پہلا  امتحان گھر سے نکلنا تھا

میں گھر سے یہ کہہ کر نکلا تھا کہ مسجد میں محفل میلاد ہے صبح نماز کے بعد آؤں گا تیار ہوا اور بس اڈے کی طرف نکل گیا اب انتظار میرے یار سفر کا تھا وہ گھر سے کیا بہانہ کرکے نکلا تھا معلوم نہیں..... یخ بستہ رات یکایک بادلوں نے آسمان کو گھیر  لیا موسلادار بارش برسنے لگی سردیوں کی بارشیں تو خاموش ہوا کرتی ہیں لیکن آج عجب سماں تھا..... بارش سے ڈر لگنے لگا تھا قریبی ایک ہوٹل میں پناہ لی بیٹھ کر انتظار کرنے لگا..... رات  بارہ بجے کے قریب کزن بھی پہنچ گیا.....اسے دیکھ کر دلی تسلی ہوئی.... ہم نے چائے پی اور اپنی آزادی کی منزل جانب بس میں بیٹھ گئے.... بس میں جاتے ہوئے عجیب و غریب خیالات نے گھیرے لے رکھا تھا نیند بھی کہیں کھو چکی تھی میرا کزن میرے کندھے پر سر ٹکائے خواب خرگوش کے مزے لے کر سو رہا تھا.... میں فیصلہ لے کر کبھی نہیں پچھتاتا ہوں.... لیکن آج دل مطمئین نہیں تھا بس کی کھڑکی پر سر ٹکائے میری بھی کب آنکھ لگی پتہ ہی نہیں لگا..... آنکھ کزن کے جگانے پر کھلی تو ہم پنڈی کی حدود سے نکل آئے تھے موٹر وے دھند میں گرا ہوا تھا بس آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی....  کھڑکی سے باہر دیکھا تو ہلکی ہلکی روشنی آسمان پر نمودار ہوچکی تھی بس کسی ٹول پلازے پر رکی تو ہم سب نے نماز فجر ادا کی...... بس دھند کی  وجہ سے کافی لیٹ تھی پانچ گھنٹوں کا سفر سات گھنٹوں میں طے ہوا تھا.... بس میں بیٹھتے ہی میں نے موبائل نکال کر میسج ٹائپ کرنا شروع کردیا.....

السلام وعلیکم....... امید ہے آپ خیریت سے ہونگے ایک بات بتانا چاہتا ہوں آج کے بعد میری شکل دیکھنے کے لیے ترسیں گے میں گھر لوٹ کر نہیں آؤں گا امی اور بابا کو کہنا مجھے معاف کردیں میں نے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے..... میسج بھیج کر میں نے سم نکال کر توڑی اور پھینک دی..... کزن نے بھی کچھ یوں کیا.... لاہور پہنچ کر دارالامان جانے کا فیصلہ کیا لیکن یہ فیصلہ یہ سوچ کر ٹھکرا دیا کہیں ہمارے متعلق یہ بتا نہ دیں اس لیے  مدرسے میں داخلہ لینے پہنچ گئے.... شومئی قسمت وہاں کسی جاننے والے سے واسطہ پڑا اور اپنے اٹھائے ہوئے قدم کے بابت بتا دیا اب وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا وہ جاننے والا جان کا عذاب بنا اور میرے پارٹنر کو ورغلا کر وہی بیٹھا کر ہمارے گھروں میں اطلاع کردی..... قصہ مختصر ابا نے جائیداد سے عاق کرنے کے لیے اشتہار بھی ریڈی کررکھا تھا مگر مذاکرات کی ٹیبل پر بزرگوں نے بیٹھا کر راضی کرلیا وہ ہی بزرگوں کی بلیک میلنگ..... عذاب سے ڈراوا.... معلوم نہیں وہ اپنے بڑے پن کی حرکتیں کب درست کریں گے بچہ ایسا قدم تب اٹھاتا ہے جب آپ والدین کی بجائے کسی ظالم بادشاہ کی مانند حکم چلائے.... آپ کا بچہ آپ کے قریب آنے کی بجائے ڈر کر بھاگتا ہے تو سمجھ لیں آپ اپنے حقوق ادا کرنے میں ناکام ہیں.....وہاں سے اکیلے کراچی نکلنے کا پلان تھا مگر میں نے ہتھیار ڈال کر واپسی کی حامی بھرلی..... کچھ عرصے کسی نے بھی بات نہ کی.... میرے گھر سے باہر جانے پر آج بھی پابندی ہے کہیں جاؤں گا تو دس جگہوں سے اجازت نامہ لے کر نکلنا پڑتا ہے..... اس قدم کے بعد زندگی ایک قیدی کی مانند ہے..... جو جیل کا دروازہ کھلے ہونے کے باوجود بھاگ نہیں سکتا...... 

favourite category

...
section describtion

Whatsapp Button works on Mobile Device only